مسلمہ حقیقت۔۔۔موت! ..تحریر: اقبال حیات اف برغذی

موت!

تین الفاظ پر مبنی یہ نام اپنی نوعیت کے اعتبار سے اتنا مضبوط ہے کہ میرے عظیم پیغمبرﷺ نے تین سو دفعہ اسے ایک ذی روح کو تلوار سے کاٹنے کے برابر طاقت کا حامل قرار دئیے ہیں۔اور یہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اتنی معتبر ہے کہ کائنات میں کسی کو بھی اس سے انکاری کی گنجائش نہیں۔ دنیا سے ہر ذی روح کےلئے ناطہ توڑنے کے لئے متعین وقت میں ایک لمحے کےلئے بھی تاخیر نہیں کرتی ۔اور اس کے چنگل سے بچانے کے لئے نہ مال وزر کام آئینگے اور نہ تاج شاہی کی سرپرائی اسے متاثر کریگی۔ نہ دنیا کی رعنائیاں اسے لبھائینگی اور نہ کسی کی شیدائی پر ترس کھائیگی۔ نہ ماں کی مامتا کی پرواہ کریگی نہ کسی کے اکلوتے پن کا لحاظ۔

موت بہ زبان خود اعلان کرتی ہے کہ میں موت ہوں جو بہن بھائیوں کے درمیان جدائی کرتی ہوں میں موت ہوں جو بیٹی اور ماں کے بیج خلیج پیدا کرتی ہوں ۔ جو دوستوں کو ایک دوسرے سے بچھڑنے دیتی ہوں ۔میں کھینچ کر مضبوط سے مضبوط ترمکان سے نکالونگی۔ دنیا کے اندر کوئی بھی ذی روح میری رسائی  سے چھٹکارہ نہیں پاسکے گی۔ نہ دنیا کی کوئی طاقت مجھے ایک لمحے کے لئے ٹال سکتی ہے اور نہ مجھ سے فرار اختیار کرسکتی ہے ۔اللہ رب العزت فرشتہ موت سے ان کی اس ڈیوٹی کے دوران کسی پر ترس آنے کے بارے میں سوال پر عزرائیل ایک کشتی میں سوار عورت کے بچے کی ولادت کے ساتھ ہی موت کی آغوش میں لینے کے حکم پر نومولود معصوم بچے پر ترس آنے اور دوسرا شداد کے خدا کے مقابلے میں دنیا میں جنت بناکر اس میں داخل ہونے کی نوبت نہ ملنے پر اس کی آرزوں پر ترس آنے کا ذکر کرتے ہیں ۔اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ تیرے یہ ترس کھانادونوں ایک ہی شخص کے لئے ہے۔ کشتی میں وہی نومولود لڑکا  ہے جسے زندگی ،مال ودولت اور حکومت عطا کرنے کے باوجود نمک حرامی کا مظاہر کرتے ہوئے سینہ تان کر میری نافرمانی کی۔

موت کی حقیقت کے پیش نظر میرے عظیم پیغمبرﷺ فرماتے ہیں کہ عقلمند انسان وہ ہے جو موت سے پہلے موت کی تیار ی کرے۔ ان حقائق کی روشنی میں جب ہم خود کا جائزہ لیتے ہیں تو اپنی عقل وخرد پر حیرت ہوتی ہے۔ دنیا میں مال جمع کرنے کا خیال دل ودماغ پر اس طرح چھایا رہتا ہے۔کہ موت کا تصور بھی بھول کریاد نہیں رہتا۔ اور دنیاوی مقاصد کے حصول کے لئے جائز  اور ناجائز کے خیال سے بھی ذہن خالی ہوتے ہیں اور اس حقیقت کو فراموش کرتے ہیں کہ

جائے   گا   جب  جہان  سے کچھ بھی نہ پاس ہوگا

                                                       دو  گز  کفن     کا    ٹکڑا   تیر ا      لباس    ہوگا

اس تناظر میں سکند راعظم فاتح عالم کی حیثیت سے دنیا سے جاتے ہوئے اپنا ہاتھ کفن سے باہر نکالنے کی وصیت کرتے ہیں تاکہ دنیا والوں کو یہ پیغام جائے کہ دنیا کو فتح کرنے کے باوجود موت کے سامنے ہتھیار ڈال کر خالی ہاتھ جارہا ہے۔

بعض اموات اپنی قدروقیمت کے اعتبار سے منفرد اہمیت کے حامل ہوتی ہیں جن کے اثرات خوشگوار/ابدی زندگی پر مرتب ہونے کی بنیاد پر مرنے کے باجود بھی زندہ ہونے کی صفت کا حامل قراردیا جاتا ہے۔

مختصر یہ کہ

  دنیا    عجیب   مرحلہ     بے   ثبات   ہے

ہر  ایک  ذی   حیات  کو  آخیر  ممات  ہے

دن  ہے کہ  دن کے  بعد  بلا شبہ رات  ہے

جس  کو   فنا   نہیں  وہی  ایک  ذات   ہے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔