ایم ٹی آئی کے شرائط و ضوابط۔۔۔محمد شریف شکیب
پشاور کے چار بڑے سرکاری تدریسی ہسپتالوں کو کچھ عرصہ قبل ایم ٹی آئی کا درجہ دیاگیا تھا۔ایم ٹی آئی طبی مراکز صوبائی محکمہ صحت کے ماتحت نہیں ہیں۔ ایم ٹی آئی کادرجہ دینے کا بنیادی مقصد انہیں مالی اور انتظامی لحاظ سے خود مختار بناناتھا۔ ان ہسپتالوں کا انتظام و انصرام بورڈ آف گورنرز کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ایم ٹی آئی کا مفہوم ان ہسپتالوں میں کام کرنے والے 80فیصد ملازمین کو بھی شاید معلوم نہ ہو۔عام لوگوں کو بھی اس پر غور کرنے کی ضرورت چنداں پیش نہیں آئی۔حال ہی میں محکمہ قانون کو اس لفظ کے مفہوم کا پتہ چل گیا ہے۔اور انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ صوبے کا سب سے بڑا طبی مرکز لیڈی ریڈنگ ہسپتال ایم ٹی آئی کی شرائط پر پورا نہیں اترتا۔میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشن (ایم ٹی آئی) سے مراد وہ ہسپتال ہے جس کے ساتھ میڈیکل کالج بھی ہو۔جس میڈیکل کالج کے ساتھ ہسپتال نہ ہو۔وہ بھی ایم ٹی آئی کے زمرے میں نہیں آتا۔ایل آر ایچ نہ صرف صوبہ خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا اور مصروف ترین طبی مرکز ہے بلکہ اوپی ڈی سروس کے حوالے سے اسے جنوبی ایشیا کا مصروف ترین ہسپتال ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہاں روزانہ بیس سے پچیس ہزار تک مریضوں کواو پی ڈسروس فراہم کی جاتی رہی ہے۔ تازہ خبر آئی ہے کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے بطور میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشن ہونے پر اعتراضات کے بعد ایم ٹی آئی ایکٹ میں ترمیم کا فیصلہ کیا گیا ہے‘محکمہ قانون کی جانب سے صوبائی اسمبلی میں جمع کئے گئے بل کا مقصد ایم ٹی آئی ایکٹ 2015کی 2شقوں میں ترامیم بتایاگیا ہے‘بل کے مطابق میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشن کامطلب ہوگا ایک میڈیکل یا ڈینٹل کالج یا صحت سے متعلق تدریسی ادارہ اوران کے الحاق شدہ تدریسی ہسپتال۔اس شق کے مطابق کوئی سرکاری تدریسی ہسپتال جو کسی میڈیکل یا ڈینٹل کالج سے الحاق شدہ ہو۔ ایک ایساسرکاری ہسپتال جو محکمہ صحت سے منظورشدہ ہو اور اس میں بڑی بیماریوں کا علاج ہوتا ہو‘جو میڈیکل کی تعلیم اورتربیت دیتاہو‘یا ایسے ہسپتال کوسرکاری فنڈزملتے ہوں یا جو براہ راست حکومتی کنٹرول میں ہو‘بل میں بورڈآف گورنرزکے چیئرمین کو بھی مزیداختیارات دینے کی تجویز دی گئی ہے جس کے مطابق صرف چیئرمین یا چیئرمین کی عدم موجودگی میں اس کا نامزدکردہ نمائندہ ہی اجلاس کی صدارت کرے گا بل کے مقاصد میں بتایاگیا ہے کہ ایم ٹی آئی کی تعریف میں صرف وہ میڈیکل کالج آتے ہیں جن کا اپنا ہسپتال موجود ہو۔ جن بڑے ہسپتالوں کے پاس میڈیکل کالج نہیں ہوتے وہ ایم ٹی آئی کی تعریف سے باہر ہیں۔پشاور میں خیبرٹیچنگ ہسپتال(شیرپاؤ ہسپتال) کے پاس خیبر میڈیکل کالج ہے اسی طرح ایوب میڈیکل کمپلیکس میں ہسپتال اور میڈیکل کالج شامل ہیں جبکہ ایل آر ایچ، حیات آباد میڈیکل کمپلیکس اور پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی اور دیگر سرکاری ایم ٹی آئی ہسپتالوں کے پاس اپنا میڈیکل یا ڈینٹل کالج نہیں ہے۔گویا یہ تمام ادارے ایم ٹی آئی کے زمرے میں نہیں آتے۔سردست ایل آر ایچ، ایچ ایم سی اور پی آئی سی کے لئے میڈیکل یا ڈینٹل کالج بنانا ممکن نہیں۔اس لئے فیصلہ کیاگیا کہ ایم ٹی آئی کے قانون میں ہی ترامیم کی جائیں تاکہ صوبے کے ان بڑے ہسپتالوں کی ایم ٹی آئی حیثیت برقرار رہے۔ اس صورتحال پر احمد فراز کا ایک شہرہ آفاق مصرعہ بار بار ذہن میں آتا ہے کہ ”ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام تیرا۔ کوئی تجھ سا ہو تو پھر نام بھی تجھ سا رکھے۔یہ قناعت ہے، اطاعت ہے کہ چاہت ہے فراز۔ہم تو راضی ہیں، وہ جس حال میں جیسا رکھے“ایک سوال یہ بھی ہے کہ بڑے تدریسی ہسپتالوں کو خود مختاری تو دی گئی تھی کیا وہ مالی لحاظ سے اب تک خود مختار ی کی تعریف پر پورا اتر سکے ہیں؟ اگر اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہے تو ایم ٹی آئی کا دم چھلہ ہٹا کر ان ہسپتالوں کو بھی محکمہ صحت کے ماتحت کردیا جائے تاکہ محکمہ صحت کے ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر طبی عملے کو بھی بڑے ہسپتالوں میں خدمات انجام دینے کا تجربہ حاصل ہوجائے۔