خیبر پختونخوا کے ساتھ روایتی امتیازی سلوک…محمد شریف شکیب

مرکز میں تحریک انصاف حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور متحدہ اپوزیشن میں شامل گیارہ جماعتوں نئی مخلوط حکومت نے قبائلی اضلاع کے 17 ارب روپے روک لئے ہیں۔اور ضم اضلاع کیلئے مختص ترقیاتی بجٹ کے چوتھے کوارٹر کا فنڈ جاری نہیں کیا گیا۔وزیراعلیٰ خیبر پختونخواکے مطابق وفاق نے قبائلی اضلاع کیلئے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ سے اپنے حصے کاتین فیصد بجٹ بھی ابھی تک نہیں دیا۔اور صحت کارڈ پلس کے فنڈز ابھی تک جاری نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے صوبائی حکومت پر اضافی مالی بوجھ پڑا ہے اور قبائلی اضلاع میں ترقیاتی منصوبوں کی رفتار بھی وسائل دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے سست پڑ گئی ہے۔صوبائی حکومت کو یہ بھی شکایت ہے کہ وفاقی حکومت نے پن بجلی مناقع کا ایک روپیہ بھی ابھی تک جاری نہیں کیا۔صوبائی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت نے ضم اضلاع کے ترقیاتی فنڈ میں تین گنا اضافہ کیا تھا۔ انضمام سے قبل قبائلی اضلاع کا مجموعی بجٹ 32ارب روپے تھا انضمام کے بعد اسے بڑھا کر 77 ارب روپے سالانہ کردیاگیا۔وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع کے حقوق کے حصول کیلئے صوبائی حکومت فنانس ڈویژن سے رابطہ کرے گی۔ صوبہ خیبر پختونخوا اپنے وسائل سے قبائلی اضلاع کے لئے زیادہ سے زیادہ پانچ ارب روپے دے سکتا ہے۔قبائلی علاقوں کے ساتھ ماضی میں بھی سوتیلی ماں جیسا سلوک ہوتا رہا ہے۔ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے پر اتفاق کیاتھا یہ بھی طے پایاتھا کہ مرکز اور چاروں صوبے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ سے اپنے حصے کا تین فیصد دس سال تک قبائلی علاقوں کے لئے مختص کریں گے مگر وفاق اور خیبر پختونخوا حکومت کے سوا کسی نے اپنے حصے کا فنڈ نہیں دیا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت اگر سیاسی مخالفت کی بنیاد پر فنڈ دینے سے انکار کررہی تھی تو پنجاب میں تحریک انصاف اور بلوچستان میں بھی ہم خیال جماعتوں کی حکومت تھی مگر انہوں نے بھی اپنے حصے کا فنڈ نہیں دیا۔ رواں مالی سال کے گیارہ مہینے گذر گئے۔ یکم جولائی2021سے مارچ2022تک مرکز اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومتیں تھیں اس کے باوجود قبائلی علاقوں کے ترقیاتی فنڈز اور بجلی کے خالص منافع کی رقم نہیں ملی تو اس کی ذمہ داری سابقہ اور موجودہ دونوں حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔خیبر پختونخوا کا یہ المیہ رہا ہے کہ مرکز اور صوبے میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود صوبہ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرتارہا ہے۔1997سے 1999تک مرکز اور صوبے میں ایک ہی پارٹی کی حکومت تھی اس کے باوجود پنجاب سے صوبے کو گندم اور آٹے کی سپلائی روک دی گئی جس کی وجہ سے لوگ چوکر کھانے پر مجبور ہوگئے۔اس سے پہلے پیپلز پارٹی کے دور میں بھی مرکز اور صوبے میں ہم خیال حکومتوں کے باوجود صوبے کے حقوق نہیں دیئے گئے سابق سپیکر عبدالاکبر تمام پارلیمانی جماعتوں کا وفد لے کر اسلام آباد پہنچے تھے۔ ہمارے یہاں سیاسی طور پر ہم خیالی کے باوجود صوبائی عصبیت غالب آتی رہی ہے۔ اور خیبر پختونخوا کے ساتھ ہر دور میں امتیازی سلوک ہوتا رہا ہے۔صوبے کے جائز حقوق کے لئے صوبائی اسمبلی میں تمام پارلیمانی جماعتوں کو پارٹی سیاست سے بالاتر ہوکر مشترکہ طورآواز اٹھانی چاہئے۔قبائلی اضلاع کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنا تمام پارٹیوں کا مشترکہ فیصلہ تھا۔اور تمام جماعتوں کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ ایک کروڑ کی آبادی صوبے میں شامل ہونے سے خیبر پختونخوا پر بہت زیادہ مالی بوجھ پڑا ہے اور تمام صوبوں اور سیاسی پارٹیوں کی آئینی، قانونی، مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اس بوجھ کو کم کرنے کے لئے سب اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔