اراکین اسمبلی ایک پیج پر…محمد شریف شکیب

خیبر پختونخوا اسمبلی کے اراکین نے ایک بار پھر اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے لئے ایکا کرلیا۔معاملہ صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں اٹھایاگیا تو سپیکر نے وزیر خزانہ کو معاملہ وزیر اعلیٰ کیساتھ اٹھانے کی ہدایت کردی۔اسمبلی اجلاس کے دوران ایک خاتون رکن نے شکوہ کیا کہ صدر اورسابق گورنر نے اپنی تنخواہیں خود بڑھائی ہیں اور سابق وزیر اعظم نے بھی اپنی تنخواہ میں از خود 8لاکھ تک اضافہ کیا ہے۔لیکن غریب ایم پی ایز کی اجرت میں کوئی اضافہ نہیں کیاگیا اور انہیں پرانی تنخواہ پر گذارہ کرنے کی تلقین کی جارہی ہے۔موجودہ مہنگائی کے دور میں منتخب عوامی نمائندے اپنے گھر کا خرچہ کیسے چلائیں۔ستم ظریفی دیکھئے کہ بلوچستان ہم سے معاشی لحاظ سے پسماندہ ہے وہاں کے ایم پی ایز6لاکھ تک تنخواہ لے رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے ایم پی ایز کے مطالبے کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ ٹیکس جتنا بھی کم ہو، لوگوں کوہمیشہ زیادہ لگتا ہے اورتنخواہ جتنی زیادہ ہوتی ہے ہمیشہ کم سمجھی جاتی ہے۔وزیرخزانہ کے ریمارکس سے یہ اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ وہ اراکین صوبائی اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کے روا دار نہیں۔چونکہ خزانہ ان کے ہاتھ میں ہے اس لئے وہی بہتر جانتے ہیں کہ تنخواہوں میں اضافے سے خزانے پر کتنا بوجھ پڑے گا۔ہماری پارلیمانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ملک کی کسی بھی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کے درمیان لاکھ اختلافات ہوں مگر تنخواہوں میں اضافے پر وہ سب ہمیشہ ایک پیج پر ہوتے ہیں۔بعید از امکان نہیں کہ اگر صوبائی حکومت ان کے چارٹر آف ڈیمانڈ پر غور نہیں کرتی تو اراکین اسمبلی بھی اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لئے سڑکوں پر نکل آئیں اور اسمبلی چوک میں دھرنا دے کر بیٹھ جائیں۔پلے کارڈ اور بینر اٹھائے نعرے بازی شروع کردیں۔کیونکہ بچہ جب تک روئے گا نہیں، ماں کوبھی اسے دودھ پلانے کا خیال نہیں آتا۔تنخواہ دار طبقے کا یہی مسئلہ ہے کہ وہ اپنی آمدن سے کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔ شاید اسی وجہ سے سیانوں نے کہا ہے کہ نوکری باپ کی بھی نہیں کرنی چاہئے۔اگرچہ عوام کے منتخب نمائندے کسی کے نوکر نہیں ہیں تاہم وہ چونکہ قومی خزانے سے اپنی کارگذاری کے صلے میں تنخواہ و دیگر انواع و اقسام کے مراعات پاتے ہیں اس لئے وہ قوم کے خادم تصور کئے جاتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ خود کوخادم کے بجائے حاکم سمجھتے ہیں۔قومی خزانے سے تنخواہ اور مراعات تو افسرشاہی کو بھی ملتی ہیں۔مگر انہوں نے بھی اپنے نام کے ساتھ چونکہ ’شاہی‘کا دم چھلہ لگایاہوتا ہے اس لئے وہ بھی نوکروں کے زمرے میں خود کو شمار نہیں کرتے۔بے شک انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔پرتعیش بنگلے، ائرکنڈیشنڈ گاڑیاں، ان کا ایندھن، نوکر چاکر، اضافی الاونسز،بیرون ملک دورے اور ٹی اے، ڈی اے کی صورت میں لاکھوں کے مراعات ملنے کے باوجود اگر ایم پی ایز کے ہاتھ تنگ رہتے ہیں تو زرا دس بارہ ہزار روپے تنخواہ لینے والوں کی زندگی کا تصور کریں کہ وہ اپنے جسم و جاں کا تعلق کیسے قائم رکھتے ہوں گے۔ منتخب نمائندوں کی مالی تنگ دستی کی بہت سی وجوہات ہیں۔ انہیں اپنا سٹیٹس بھی برقرار رکھنا ہوتا ہے ملاقات کے لئے آنے والے اپنے حلقے کے لوگوں کے لئے چائے پانی کا بھی بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ مہمان خصوصی کے طور پرمختلف عوامی تقریبات میں شرکت اورعطیات کا اعلان بھی کرنا پڑتا ہے۔بیوی بچوں اور رشتہ داروں کی فرمائشیں بھی پوری کرنی ہوتی ہیں۔خواتین ممبران اسمبلی کے اخراجات مرد ارکان سے بھی دوچند ہیں۔کسی وزیر، مشیر اور معاون خصوصی کو اپنی تنخواہ پر گذارہ کرنے کو بھی نہیں کہاجاسکتا۔اس لئے ان کا تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ بھی ناجائز نہیں ہے۔ توقع ہے کہ صوبائی حکومت ان کے معصومانہ مطالبات پر سنجیدگی اور ہمدردی سے غور کرے گی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔