شہزادہ محی الدین کی خدمات….تحریر:پروفیسر اسرار الدین

شہزادہ محی الدین ایک ایسی شخصیت تھے، جو کہ عرصہ دراز تک چترال کے لوگوں کو یاد رہے گا۔ اور مستقبل کا مورّخ گذشتہ اور موجودہ صدی کے چار عشروں کومحی الدین کے عہد کے طور پر ذکر کرتا رہے گا۔ آپ نے84 سال کی عمر پائی اور بھرپور اندازمیں اپنے ماہ و سال گزارے اور اپنی زندگی کا بہترین حصہ چترال اور اہالیان چترال کی خدمت میں گزارے۔ آپ کی عملی زندگی کے ابتدائی چند سال ایک قابل اور محنتی بیوروکریٹ کے طور پر گزرے۔ اور بقایا زندگی بطور ایک کامیاب سیاسی کارکن و رہنما کے طور پر صرف ہوئے۔ اس طرح ہر لحاظ سے کامیاب زندگی آپ کا مقدر تھی پیرانہ سالی اور جسمانی معذوری کے باوجود آپ آخر تک ذہنی طور پر چاق و چوبند رہے۔

میں مرحوم شہزادہ صاحب کو سکول کے زمانے سے جانتا ہوں۔ ہم دونوں ہائی سکول چترال کے طالب علم تھے۔شہزادہ صاحب مجھ سے دو سال پیچھے تھے۔ اس زمانے میں سکول کے طالب علموں کی تعداد کم ہوتی تھی، اس لیے دو کلاس پیچھے کے طالب علموں کے ساتھ اور خاص طور پرجو طلباء ذہین اور قابل ہوتے تھے، اُن سے واقفیت عام طور پر رہتی تھی۔ محی الدین ایک اچھے فٹ بالر کے طور پر مشہور تھے اور ساتھ ساتھ پڑھائی میں بھی قابل طالب علموں میں بھی ان کا شمار ہوتا تھا۔ ان کی یہ خصوصیت MAاکنامکس پاس کرنے تک رہی وہ اچھے کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ قابل طالب علم بھی رہے، ورنہ عموماََ تجربہ یہ رہا ہے کہ جو اچھے کھلاڑی ہوتے تھے وہ پڑھائی میں اکثر پیچھے رہتے تھے۔ کئی تو امتحانات میں فیل بھی ہوتے تھے اور کہیں کے نہیں رہتے تھے۔

شہزادہ مرحوم اسلامیہ کالج میں اور پھر یونیورسٹی میں فٹ بال کے اہم کھلاڑی ثابت ہوئے اور کالج اور یونیورسٹی ٹیموں کے کپتان بھی رہے۔ اسی دوران آپ کو مغربی پاکستان کی یونیورسٹیوں کی کمبائینڈ فٹ بال ٹیم کا کپٹن سلیکٹ کیاگیا۔اور آپ نے اس حیثیت سے مغربی پاکستان یونیورسٹیز فٹ بال کی سرکردگی میں مشرقی پاکستان کا کامیاب دورہ کیاتھا۔اسی زمانے پشاور میں چترالی کمیونٹی میں فٹ بال کا شوق بہت زیادہ تھا اور ان کی وجہ سے شاہی باغ کے فٹ بال گراؤنڈ آباد رہتے تھے۔ شہزادہ مرحوم نے ان کے ساتھ مل کر ان کی ٹیموں کی تنظیم کی اور خود بھی ان کے ساتھ کھیلتے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے۔ اس طرح وہ چترال کمیونٹی میں اس قدر مقبول ہوئے کہ وہ لوگ ان پر جان چھڑکنے کیلئے تیار ہوتے۔ اور بعد میں شہزادہ جب سیاسی زندگی میں شامل ہوئے تو پشاورمیں چترالی کمیونٹی والے دل کھول کر شہزادہ صاحب کے سپورٹر بن گئے۔ اور شہزادہ صاحب نے بھی ہمیشہ ان کے ساتھ تعلق قائم رکھا۔وزیرباغ کے چترالی قبرستان میں دل کھول کر حصہ لیا۔

شہزادہ مرحوم کی طالب علمی کے زمانے کی یہ سرگرمی قدرتی طور پر ان کو عمومی انداز میں زندگی گزارنے کی ایک ابتدائی تربیت ثابت ہوئی۔ یہ ایسا زمانہ تھا جب شہزادے عام لوگوں سے اکثر کچھے کچھے رہتے تھے۔ اور ان سے فاصلے پر رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن محی الدین نے یہ روایت توڑدی تھی۔ اس لیے عام لوگ بھی ان کو سر پر بٹھانے کیلئے تیار ہو گئے۔

شہزادہ جب یونیورسٹی کے طالب علم تھے تو چترال سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے نام سے ایک انجمن بنائی جس کے ذریعے چترال کے سٹوڈنٹس کو اپنے مسائل اور مطالبات حکومت کے ایوانوں تک پہنچانے کا ایک راستہ مل گیا۔ شہزادہ خود اس کے بانی صدر منتخب ہوئے۔ بعد میں یہ انجمن چترالی طالب علموں کی بہبودی میں بہت زیادہ کارآمد ہوئی۔ اور ان کی کوششوں سے میڈیکل اور انجینئر نگ کالج وغیرہ میں چترال کیلئے مخصوص سیٹوں کا اضافہ ہوا۔ اور وہ کئی دوسرے مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

آج چترال میں جتنے ڈاکٹرز اور انجینئر ز ہیں وہ ان مخصوص سیٹوں کے مرہون منت ہیں۔محی الدین مرحوم نے بعد میں بحیثیت وزیر، مشیر یاچیئرمین \ناظم بلدیات اس ایسوسی ایشن کے ممبران کی حوصلہ افزائی کرتے رہے اور کئی دفعہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے ان کے اجلاس میں شرکت کی اور عطیات دیئے۔ نیز فخر سے کہا کرتے تھے کہ میں اس ایسوسی ایشن کا بانی صدر رہا ہوں۔

عملی زندگی کے چند سال بحیثیت بیوروکریٹ گزارنے سے شہزادے کو آگے چل کر کئی فائدے ہوئے جن میں سے چند یہ ہیں۔

1) گڈ گورننس (اچھی طرز حکمرانی) کا گُر عملی طور پر سیکھنے کا تجربہ حاصل ہوا، جو بعد میں ان کے کام آیا۔

2) آپ پہلے سکریٹری تعمیرات، بعد میں ڈپٹی کمشنر مستوج اور دیگر اہم عہدوں پر تعینات رہے، اس حیثیت سے تمام چترال کا  ازبرو غل تا ارندو دورے کرکے چپہ چپہ سے واقفیت حاصل کرلی اور تمام علاقوں کے مسائل اور وسائل کا بذات خود جائزہ لیتے رہے۔اور ان علاقوں کے بڑوں سے واقفیت اور شناسائی حاصل کرکے ان سے اہم معلومات حاصل کرتے رہے۔ مزید اس دورا ن ان علاقوں کے عوام سے مل جل کر تعلق پیدا کیا اور ان کی نیک خواہی (Good will)حاصل کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی۔

3) بیوروکریٹ رہنے کا ان کو ایک فائدہ یہ ہوا کہ بعد میں عوامی مسائل ان سے حل کرانے کے گُر ان کو آگئے۔ وہ کسی بھی بڑے افسر سے دبتے نہیں تھے اور ان سے ان کی زبان میں بات کرتے اور کام کرواتے تھے۔

4) کسی سے پوچھا گیا ایک بیوروکریٹ اور سیاست دان میں کیا فرق ہوتا ہے، جواب دیا کہ بیوروکریٹ عوام کی گردنوں پر سوار ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اور سیاست دان کی گردن پر عوام سوار ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ شہزادہ موصوف ان دونوں حالات میں بین بین رہے، نہ ہی خود عوام پر سوار ہونے کی کوشش کی اور نہ ہی عوام کو خود پر سوار ہونے دیا۔ بلکہ دونوں حیثیتوں میں لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلے۔ یہ انکی کامیابی کا ایک اہم راز تھا۔ چناچہ جب سیاست میں داخل ہوئے تو نہ صرف اپنے ہم عصرکئی سیاست دانوں کی بہ نسبت زیادہ جانی پہچانی شخصیت تھے بلکہ نئے انداز والے سیاست دان تھے۔

انگریزی کاایک محاورہ ہے جسکا مطلب یوں بنتا ہے۔ اچھی ابتداء کر کے آپ ادھا میدان مار سکتے ہیں۔ چناچہ اس پس منظر میں شہزادہ موصوف کی ڈسٹرکٹ چیئر مین پہلے دو سالوں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ شہزادہ موصوف کے عملی سیاست میں قدم رکھنے کے بعد ان کے انداز سیاست کا اندازہ ہوسکے۔

1983 میں دوسری بار بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے۔ ڈسٹرکٹ کونسل کے 33ارکان تھے۔ شہزادہ محی الدین ان کے چیئرمین منتخب ہوئے شروع ہی میں انہوں نے چندرہنما اُصول بنائے جن کے مطابق ڈسٹرکٹ کونسل کے ادارے کے تحت تمام چترال کی ترقی کے لیے کوشش اور جدوجہد کرنی تھی۔

1) پہلا اور اہم اُصول یہ طے کیا گیا کہ کوئی گروپ بندی نہیں ہوگی۔ گو یا ہر ایک نے “چترال سب کا اور سب چترال کا” کے اُصول کے تحت کام کرنا تھا۔

2) منصوبوں اور فنڈز کی تقسیم کے سلسلے میں ترجیحات دیتے وقت ذاتی یا مقامی مفادات کی بجائے ضلع کے عمومی مفادات کا خیال رکھا جائے۔

3) پسماندہ اور دور افتادہ علاقوں، خصوصاََ ان علاقوں کی ترقی پر خاص توجہ دی جائے گی جو اب تک محروم رہے ہیں۔ اس مقصد کیلئے اراکین نے ایثار اور رواداری کی مثال قائم کرنی ہوگی۔

4) ضلع کے دو اہم مسلمان فرقوں کے درمیان فرقہ وارانہ ہم اہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

5) دیگر ترقیاتی کاموں کے ساتھ ضلع میں عوام کی صحت، تفریح اور دلچسپیوں کیلئے چترال کے عوامی کھیل پولو اور دوسرے کھیلوں مثلاََ فٹ بال، ہاکی اور کرکٹ وغیرہ کو فروغ دیا جائے گا۔

6) ملک میں نظام اسلام کانفاذ اور ایک صاف ستھرا اسلامی معاشرہ قائم کرنے کیلئے حکومت سے جو کوششیں ہورہی ہیں ان میں بھرپور تعاون کیا جائے گا۔

یہ خالی خولی باتیں نہیں تھی بلکہ 1983ء سے 1985ء تک جو کارگزاری دیکھی جاتی ہے تو انسان حیران ہوتا ہے۔ اتنے تھوڑے عرصے میں کتنا کچھ حاصل ہوسکتا ہے۔

   خرمندان و دانشمند جب کام پہ آتے ہیں

   سمند ر پھاڑ دیتے ہیں کوہ سے دریا بہاتے ہیں

یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ وہ زمانہ تھا کہ چترال کا زیادہ حصہ دور افتادگی کا شکار تھا۔ مستوج تک جیب گاڑیوں کی دشوار گزارسڑک تھی باقی تمام علاقوں میں خچروں کے چلنے کے قابل پگڈنڈیاں (Mule tracks) یا صرف پیدل چلنے کے قابل راستے تھے۔ ایسے حالات میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے لوگوں کو کن دشواریوں کا سامنا تھا۔1984ء سے1986ء تک دو سالوں کے دوران شہزادہ موصوف کی قیادت میں ڈسٹرکٹ کونسل کی تحت 150کلو میٹر جیب چلنے کے قابل سڑکیں چترال کے گوشے گوشے پہنچ چکی تھی جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

1) علاقہ دروش۔۔۔۔(اراندو)، دامیل، بیوری، مداک لشت

2) چترال: گولین وادی

3) لٹکوہ: وادی ارکری، کریم آباد، اپر لٹکوہ، گوبور، بگشٹ وادی

4) موڑکہو: اویر، شوگرام، کشم، مداک، تریچ وادی تا شگرام، لون، گہکیر

5) تورکہو: شاگرام، کھوت، ریچ، مہڑپ،

اپر اور لوئر چترال میں کئی بڑے دیہات کے اندر رابطے سڑکیں ان کے علاوہ ہیں۔ مزید ڈسٹرکٹ کونسل کی سفارش پر صوبائی محکمہ کمیونیکیشن و ورکس نے صوبائی گورنرکے احکامات کے مطاق مندرجہ ذیل منصوبے شروع کئے۔

1) چترال بونی روڈ مروئی تا برنس الائنمنٹ (20کلو میٹر)۔

2) بروغل روڈ مستوج تا بریپ (20کلو میٹر)

3) تورکہوروڈ بونی تا شگرام (20کلو میٹر)

مندرجہ بالا سٹرکوں کے علاوہ تعلیم، صحت، آب نوشی، تحفظ حیوانات، آب پاشی اور بے شمار دیگر سیکٹر میں جو قابل قد ر کام ان کی تفصیل الگ ہے۔

اس طرح شہزادہ موصوف نے بہترین کا رکردگی کا مظاہرہ کرکے اپنی سیاسی ذمہ داری کاآغاز کیا۔ اگے ان کا راستہ آسان تھا اور تین عشروں تک (کچھ تھوڑے سے وقفوں کے علاوہ) چیئر مین یاناظم بلدیات، ممبر قومی اسمبلی، صوبائی وزیر، وفاقی وزیر مملکت کی حیثیت سے ملک اور کام کی بھرپور خدمت کی۔ چناچہ آج چترال میں عوامی بہبود سے متعلق جتنے شعبے ہیں ان کی ترقی میں شہزادہ موصوف کی چھاپ نظر آسکتی ہے۔

مُحی الدین مرحوم کی زندگی کے بارے میں لکھتے ہوئے مختلف لکھنے والے کئی باتیں سامنے لاتے ہیں۔ لیکن ایک بات بھول جاتے ہیں کہ شہزادہ موصوف ہمیشہ فخر سے یہ کہا کرتے تھے کہ میری کامیابیوں کی وجہ میرے والد کی دعائیں ہیں جو ہمیشہ میرے لیے دست بہ دعا رہتے تھے شہزادہ سے بھی جتنا ہو سکتا تھا ان کی خدمت  میں دست بستہ رہتے تھے ان کے والد مرحوم اللہ والے انسان تھے۔ شہزادہ تھے، لیکن عام لوگوں کی طرح زندگی گزارنے کو پسند کرتے تھے۔ غریبو ں اور فقیروں کی صحبت میں رہتے ان کی مدد کرتے اور ان سے دعائیں لیتے۔ حضورؐ کی اس دعا کے مصداق تھے “یا اللہ مجھے جیتا رکھ تو مسکین اور خاکسار جیتا رکھ اور اُٹھا تو مسکین اور خاکسار اُٹھا۔ جب میرا حشر ہو تو مسکینوں کی جماعت میں ہو ” بسر اوقات ذکر الٰہی، تلاوت قرآن پاک اور دینی کتب کے مطالعہ میں گزارتے۔ اولیاء اور بزرگان دین کے دربار میں حاضری کو ترجیح دیتے۔ ان کے والد ہز ہائی نس محمد شجاع الملک ان کو اُن کی اس سادہ پسندی کی وجہ سے بہت عزیز رکھتے تھے۔ ان سب کے باوجود اس کی حاضر دماغی، حاضر جوابی اور زبر دست قوت حافظہ کے کئی واقعات ہیں جو قابل ذکرہیں۔ میرے والد مرحوم کا ان سے خاص تعلق تھا۔ دو واقعات کا ذکر وہ خاص طور پر کرتے تھے۔ ایک یہ کہ ایک دفعہ ہز ہائی نیس دروش کے دورے پر آئے تھے۔ شہزادہ امیر الدین ایک یا دو دن بعد ان سے ملنے حاضر ہوئے، ہز ہائی نس نے پوچھا اتنے دن کہا تھے جلدی کیوں نہیں آئے؟ بتایا کہ مجھے پتا نہیں لگا۔ ہز ہانس نے کہا کہ توپوں کی آواز سے بھی تمہیں پتہ نہیں چلا کہ میں آیا ہوں۔ آپ نے برجستہ جواب دیا کہ چھاؤنی میں ہمیشہ توپوں کی چاندماری کرتے ہیں میں کیسے سمجھوں کی ہز ہائی نس آئے ہیں۔

ایک دفعہ چترال کے ایڈیشنل پی اے (میر عجم خان) دروش کے دورے پر آئے۔تو شہزادہ نے اس کو یہ خط لکھا

  دروش سے تین میل دور

  میرا گھر سیر دور

  اگر آپ میرے پاس آئیں

  تو مجھے ہوگا دل کا سرور

میں انتظار میں رہوں گا

  آپ تشریف لائیں ضرور

میر عجم خان مزے سے یہ خط لوگوں کو بتاتے ہیں۔

حاضر دماغ اتنے تھے کہ آپ کئی سالوں بعد ان سے ملتے تو بھی آپ کو پہچان لیتے تو کئی پرانی باتیں یاد کراتے۔ آخری زمانے میں بیمار رہتے شہزادہ مُحی الدین رات دن ان کی خدمت گزاری کرتے۔میرا بھائی ڈاکٹر فدا ان دنوں دروش ہسپتال میں انچارج تھے اور ان کے فیملی معالج تھے۔ وہ بتاتے ہیں بیماری کے دوران بھی حاضردماغی اور خوش مزاجی اور ہر وقت ذکر الٰہی کی اپنی خاص عادت پر قائم رہے اور ساتھ ساتھ شہزادہ مُحی الدین کی خدمت بجااوری کا سلسلہ بھی دیکھا جو قابل دادتھا۔

شہزادہ مُحی الدین مرحوم آخری کئی سال معذور اور بیمار رہے۔ اسی طرح ان کے فرزندان ارجمند نے انکی بھر پور طریقے خدمت انجام دینے میں کوئی کسرنہ رکھی۔علماء بتاتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بیماریوں کے ذریعے گناہوں سے صاف کرتے ہیں۔

حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب مدظلُہ جوحضرت مولانا محمد مستجاب ؒ (المعروف مولانا اویر)کے بھتیجے ہیں اور جامعہ اشرفیہ لاہور کے سینئر اساتذہ کرام میں سے ہیں۔ایک دفعہ شہزادہ مرحوم کی عیادت کے لئے گئے اور ان کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ جب کسی کی ایک آنکھ کی بینائی اس سے چھین لیتے ہیں تو اس کے بدلے اسکو جنت میں ایک محل عطا فرماتے ہیں۔آپ کی دوآنکھوں کی بینائی چلی گئی ہے تو یقینا اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے دومحل اور کیا کیا انعامات جنت میں تیار رکھے ہوں گے”جب شہزادہ موصوف کو یہ خوشخبری سنائی گئی تو بے حد خوش ہوئے اور کہا کہ اس کے بعد اب مجھے کسی بات کا غم نہیں“

 اس طرح شہزادہ مُحی الدین مرحوم کو بھی اللہ تعالیٰ نے بیمار اور معذور کرکے جملہ لغرشوں سے پاک کرکے رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اپنے حضور بلوایا۔ اِ نَّا لِلَّہ ِ وَ اِ نَّا اِ لَیْہِ رَاجِعْو نَ۔

اللہ تعالیٰ ان کو اپنی جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور چترال کو ایک بہترین متبادل لیڈر نصیب فرمائے۔

           آمین

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔