وزیراعلیٰ محمود خان کی زیر صدارت کالام کرکٹ اسٹیڈیم کے حوالے سے اجلاس منعقد

پشاور(چترال ایکسپریس)خیبرپختونخوا میں بین الاقوامی معیار کے کرکٹ اسٹیڈیم کالام کرکٹ اسٹیڈیم کی تعمیر کیلئے کنٹریکٹ ایوارڈ کر دیا گیا ہے اور بہت جلد منصوبے کا باضابطہ سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔ یہ بات منگل کے روز وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کی زیر صدارت کالام کرکٹ اسٹیڈیم کے حوالے سے منعقدہ ایک اجلاس میں بتائی گئی ۔ کمشنر ملاکنڈ ڈویژن شوکت علی یوسفزئی ، ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان، ڈائریکٹر جنرل محکمہ کھیل خالد خان اور دیگر متعلقہ حکام نے اجلاس میں شرکت کی ۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ منصوبے کا باضابطہ سنگ بنیادرکھنے کیلئے تمام تر لوازمات کو بروقت حتمی شکل دی جائے تاکہ جلد ازجلد اس منصوبے کی تعمیر پرکام شروع کیا جا سکے ۔اجلا س کوکالام کرکٹ ا سٹیڈیم کے مختلف پہلوﺅں کے حوالے سے بریفینگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ341 کنال و سیع اراضی پر تمام جدید سہولیات سے آراستہ کرکٹ اسٹیڈیم تعمیر کیا جائے گاجس کا تخمینہ لاگت 2 ارب روپے سے زائد ہے ۔ مزید بتایا گیا کہ مذکور ہ کرکٹ اسٹیڈیم کا منصوبہ دوسال کی مدت میں مکمل کیا جائے گا ۔ کرکٹ اسٹیڈیم میں دیگر سہولیات کی دستیابی کے علاوہ بیک وقت چھ ہزار تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہو گیجبکہ اس کے زیادہ تر تعمیراتی کام میں کنکریٹ کی جگہ مصنوعی لکڑی کا استعمال کیا جائے گا تاکہ کالام کے قدرتی حسن کو برقراررکھاجائے۔ وزیراعلیٰ نے ا س موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ کالا م کرکٹ اسٹیڈیم پورے پاکستان میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد کرکٹ گراﺅنڈ ہو گا جس سے ملک میں کرکٹ کلینڈر کو بڑھانے کے علاوہ مقامی سیاحت کو بین الاقوامی سطح پر فروغ ملے گا۔ اُنہوںنے مزید کہاکہ کرکٹ اسٹیڈیم کی تعمیر سے صوبے کی معیشت کو مضبوط کرنے اور مقامی لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع پید ا کرنے کے علاوہ دیگر مقامی کھیلوں کو بھی فروغ ملے گا۔ صوبے میں کھیلوں کی سرگرمیوں کے فروغ کو اپنی ترجیحات کا اہم جز قرار دیتے ہوئے کہاکہ صوبائی حکومت صوبہ بھر میں نوجوانوں کو کھیلوں کی جدید سہولیات کی فراہمی کیلئے ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت نتیجہ خیزاقدامات اُٹھارہی ہے اور صوبے کے مختلف اضلاع میں سپورٹ کمپلیکس کا قیام ان اقدامات کی اہم کڑی ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔