داد بیداد۔۔۔یا سین ملک کا جرم؟۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

بھارتی عدالت نے کشمیری حریت پسند رہنما یا سین ملک کو عمر قید اور 10لا کھ روپے جرما نہ کی سزا سنا ئی ہے مگر ان کا جرم کیا ہے؟ اس پر بھارتی عدالت اور میڈیا کے پا س مبہم الفاظ میں ”اگر مگر“ کے سوا کچھ بھی نہیں یا سین ملک پر الزام لگا یا گیا تھا کہ وہ دہشت گرد ہے اس الزام کا کوئی ثبوت عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا جب تک ثبوت نہ ہو الزام محض الزام ہوتا ہے جرم نہیں بنتا، مہا تما گاندھی اور جواہر لال نہرو نے بھارت کی آزادی کے لئے طویل جدو جہد کی تھی کیا بھارتی عدالت دونوں رہنما وں کو دہشت گرد قرار دے گی؟ یہ ممکن نہیں ہے اپنے وطن کی آزادی کے لئے آواز اٹھا نا حریت پسندی ہے دہشت گردی نہیں اور حریت پسندی کو اقوام متحدہ نے تحفظ دیا انسا نی حقوق کے چار ٹر نے بھی آزادی کی جدو جہد کو تحفظ دیا ہے دنیا کا کوئی بھی قا نو ن ایسا نہیں جو آزادی کی جدو جہد کو دہشت گردی سے جو ڑدے اگر یا سین ملک نے جہاز اغوا کیا ہوتا، اگر یا سین ملک نے بم دھما کے میں بے گنا ہ انسا نوں کی جا ن لینے کا جرم کیا ہوتا، اگر یا سین ملک نے ریلوے سٹیشن، ائیر پورٹ، پبلک پارک یا کسی عوامی مقام پر خود کش دھما کہ کیا ہو تا، بھارتیوں نے عدالت میں اس کے ثبوت پیش کئے ہوتے تو یا سین ملک پر فرد جرم عائد ہو سکتا تھا مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا یا سین ملک کشمیر کی آزادی کے لئے سیا سی محاذ پر جدو جہد کرنے والا کشمیری رہنما ہے 1963ء میں پیدا ہوا اس وقت اس کی عمر 59سال ہے 1990ء میں جمو ں کشمیر لبریشن فرنٹ میں شا مل ہوا یہ تنظیم امان اللہ خا ن نے 1976ء میں قائم کی تھی 2011ء میں بھارتی حکومت نے تنظیم کو کا لعدم قرار دیا یا سین ملک 22فر وری 2019ء کو آخری بار گرفتار ہوئے پہلے انہیں بھلوال جیل میں رکھا گیا 7مارچ 2019کو انہیں بد نا م زما نہ تہاڑ جیل منتقل کیا گیا 25مئی کو بھارتی عدالت نے انہیں عمر قید اور 10لا کھ روپے جر ما نہ کی سزا سنا ئی، ان کی بیوی مشال ملک نے اپنی بیٹی رضیہ سلطا نہ کو ساتھ لیکر یا سین ملک کے لئے انسا نی حقوق کی عالمی تنظیموں سے تعاون کی اپیل کی ہے مقبوضہ کشمیر میں تین دنوں تک ہڑ تال ہوئی جگہ جگہ مظا ہرے ہورہے ہیں پا کستان کے ایوان بالا سینیٹ نے یا سین ملک کو سزا سنا نے کے بھارتی فیصلے کی مذمت کر تے ہوئے قرارداد منظور کی ہے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلا س میں یا سین ملک کو سزا دینے کے خلا ف قرار داد مذمت منظور کی گئی، پا کستانی دفتر خارجہ نے اقوام متحدہ کے سکر ٹری جنرل سے بھارت میں انسا نی حقوق کی پا ما لی اور یا سین ملک کو کسی جرم کے بغیر یکطرفہ سزا سنا نے کے خلاف آواز اٹھا نے کی اپیل کی ہے، مگر ہمیں نوابزادہ نصر اللہ خا ن کا شعر رہ رہ کے یاد آتا ہے ؎
کب اشک بہا نے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاوں سے ٹلی ہے
اگر غور سے دیکھا جا ئے تو بھارت، امریکہ اور دیگر مما لک کی عدا لتیں حکومت سے ڈکٹیشن لیکر فیصلے سنا تی ہیں اگر عدالتیں آزاد ہوتیں تو عافیہ صدیقی کو سزا نہ ہو تی اس پر کوئی الزام ثا بت نہیں ہوا تھا امریکی صدر نے کہا 90سال قید کی سزا سنا ؤ، عدالت نے وہی سزا سنا ئی، افضل گورو پر کوئی الزام ثا بت نہیں ہوا، بھارتی وزیر اعظم نے حکم دیا افضل گورو کو پھا نسی دو، عدالت نے انہیں سزائے مو ت دی یا سین ملک پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا نریندرا مو دی نے کہا عمر قید کی سزا دے دو، عدالت نے حکم کی تعمیل کی اگر وطن کی آزادی کے لئے تقریر کرنا، اخبارات میں بیان دینا، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں اظہار خیال کرنا جرم ہے تو یہ جرم مہا تما گاندھی اور جواہر لال نہرو نے بھی کیا تھا البتہ ان کے دور میں سوشل میڈیا نہیں تھا اگر بھارتی عدالت حکومت کے دباؤ سے آزاد ہوتی تو ایسا ظالما نہ فیصلہ کبھی نہ کر تی انسا نی حقوق کی عالمی تنظیموں کو اس ظلم کا حساب لینا ہو گا

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔