خود احتسابی کا قابل تقلید عمل…محمد شریف شکیب

ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق صوبائی حکومت نے محکمہ بلدیات سے قومی احتساب بیوروکی زدمیں آنے والے افسران کی فہرستیں طلب کر لیں کچھ عرصہ قبل بھی یہ فہرستیں مانگی گئی تھیں محکمے کو ہدایت کی گئی ہے کہ پلی بارگین کرنے والے‘نیب کو رضاکارانہ طورپر رقم جمع کرنے والے‘اینٹی کرپشن اور دیگر احتساب کے اداروں میں پیش ہونے والے افسران کی فہرست بھی دی جائے‘ قومی احتساب بیورو‘اینٹی کرپشن اور محکمانہ انکوائریوں کی مکمل تفصیلات بھی طلب کی گئی ہیں‘دیگر اداروں سے ڈیپیوٹیشن پر آنے والے افسران اور ملازمین کی فہرست بھی طلب کی گئی ہے‘یہ بھی کہا گیا ہے کہ پول میں موجود تمام گاڑیوں کاریکارڈبھی جمع کرایاجائے مختلف منصوبوں کے لئے بیرونی اور مقامی فنڈزسے خریدی گئی گاڑیوں کی تفصیلات کے علاوہ‘افسران کے نام اور ان کو دی گئی گاڑیوں کی تفصیل اورناکارہ گاڑیوں کی تفصیلات بھی مانگی گئی ہیں‘گیسٹ ہاؤسزاور ریسٹ ہاؤسوں کی3سال کی آمدن اور ان میں مقیم افرادکے کوائف بھی طلب کئے گئے ہیں۔وزیربلدیات کو اپنے محکمے میں ہونے والی مبینہ انتظامی بے قاعدگیوں، مالی کرپشن اور سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال کے حوالے سے شکایات ملی تھیں جن کی تحقیقات کے لئے محکمے کے اہلکاروں اور وسائل کا ڈیٹا جمع کیاجارہا ہے تاکہ بے قاعدگیوں کا کھوج لگا کر اس میں ملوث اہلکاروں کو قانون کے کٹہرے میں لایاجاسکے۔ اداروں میں اصلاحات اور تطہیر کا عمل گذشتہ سات آٹھ سالوں سے جاری ہے تاہم وسائل کے بے دریغ استعمال اور مالی بے قاعدگیوں پر پوری طرح قابو نہیں پایاجاسکا۔ جس کی بنیادی وجہ ہے کہ سرکاری اداروں میں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے اور بے قاعدگیوں میں ملوث اہلکار ایک دوسرے کے کرتوتوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔ کسی بھی ادارے میں خود احتسابی کا کوئی موثر میکینزم موجود نہیں۔ سرکار کے وسائل کو شیر مادر سمجھا جاتا ہے اور انہیں ہڑپ کرنا لوگ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ جس سے معاشرے میں کرپشن کو فروغ مل رہا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ چوری، خیانت، بے قاعدگی، اقرباپروری،سفارش
اور رشوت کو ہمارے معاشرے میں معیوب اور گناہ نہیں سمجھا جاتا۔جن کے پاس زیادہ دولت، بڑی گاڑیاں، عالیشان بنگلے، جائیدادیں اور اثاثے ہوں انہیں قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے حالانکہ ان کے اردگرد کے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ دولت، جائیدادیں اور وسائل غیر قانونی طریقے سے حاصل کئے گئے ہیں۔ اسی معاشرتی رویے کی وجہ سے کرپشن کو فروغ ملتا رہا۔سرکاری محکموں میں فرض شناس، حلال روزی پر اکتفا کرنے والے، محنتی اور قابل لوگوں کی کمی نہیں ہے مگر ایسے لوگوں کی معاشرے میں کوئی قدر نہیں ہے۔ محکمہ بلدیات کی طرح دیگر وفاقی اور صوبائی محکموں میں بھی وسائل کے بے دریغ استعمال، مالی اور انتظامی بے ضابطگیوں کی شکایات عام ہیں حکومت ان اداروں میں اصلاحات لانے کی کوشش کرے تو بے قاعدگیوں میں ملوث عناصر رکاوٹیں کھڑی کردیتے ہیں ہڑتال، احتجاج، تالہ بندی اور دھرنے دیئے جاتے ہیں صحت اور تعلیم کے محکموں میں اصلاحات لانے میں حکومت کو برسوں لگے اب بھی بہت سی خامیاں موجود ہیں۔مگر مخالفت، رکاوٹوں اور اوچھے ہتھکنڈوں سے مرغوب ہوکر اصلاحات کا عمل روکنا نہیں چاہئے۔ سرکار کے زیر انتظام اداروں کے اہلکاروں کو عوام کی مشکلات میں کمی لانے اور انہیں ریلیف فراہم کرنے کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں جس کے عوض انہیں قومی خزانے سے پرکشش تنخواہیں، رہائشی مکانات، گاڑیاں اور دیگر مراعات دی جاتی ہیں اور قوم کے ٹیکسوں سے تنخواہ اور مراعات پانے والے قوم کے خادم ہوتے ہیں ان کے پاس موجود وسائل قوم کی امانت ہوتے ہیں جن میں خیانت قومی جرم ہے۔ اس جرم کے مرتکب کچھ لوگوں کو قرار واقعی سزا ملے تو کرپشن، غفلت اور بے قاعدگیوں کی شرح میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔