اہل رائے کا صائب مشورہ۔۔۔محمد شریف شکیب

حکومت نے وسیع تر قومی مفاد میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تیس روپے فی لیٹر اضافہ کردیا ہے دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ جس دن پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیاگیا اسی روز بجلی بھی ساڑھے سات روپے فی یونٹ مہنگی کردی گئی۔لوگ تذبذب کا شکار ہیں کہ وہ تیل کی قیمت بڑھنے کا غم منائیں یا بجلی مہنگی ہونے پر اپنے غم و غصے کا اظہار کریں۔چلومان لیاکہ آئی ایم ایف نے ایک ارب ڈالر کا قرضہ دینے کے لئے تیل اور بجلی مہنگی کرنے کی شرط لگائی تھی جس کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہماری مجبوری ہے۔ لیکن بعض وزراء کے اس بیان نے جلتی پر تیل کاکام دیا کہ پٹرول 209روپے فی لیٹر ہونے کے باوجود اب بھی امریکہ، برطانیہ، فرانس، جاپان اور جرمنی سے سستا ہے۔ایک ہفتے میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ساٹھ روپے فی لیٹرسے زیادہ اضافے کے باوجود لوگ سڑکوں پر نہیں نکلے بلکہ پنکھے کے نیچے بیٹھ کر سوشل میڈیا پر اپنا غصہ نکال رہے ہیں۔عالمی مالیاتی ادارے کی قرضہ دینے کے لئے تازہ شرائط سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے بھی اشرافیہ کے دوست اور خیر خواہ ہیں وہ صرف عوام کا خون نچوڑنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے قرض دینے کے لئے کبھی یہ شرط نہیں رکھی کہ صدر، وزیراعظم، گورنر، وزرائے اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزراء اور افسروں کے ذاتی استعمال کی سرکاری گاڑیوں کی تعداد کم کی جائے ان گاڑیوں کے تیل کا کوٹہ ختم کیاجائے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے ملازمین کو مفت بجلی کی فراہمی بند کی جائے۔ آئی ایم ایف والوں کو بھی بخوبی معلوم ہے کہ یہ شرائط کبھی پوری نہیں ہوں گی انہوں نے بھاری شرح سود پر قرضہ دینا ہوتا ہے اس لئے وہ ناقابل قبول شرائط کبھی نہیں رکھتے۔ یہ طے ہے کہ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ اور ہوشربا اضافے سے مہنگائی کی ناقابل برداشت لہر آئے گی۔ابھی پٹرول مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اطلاق بھی نہیں ہوا تھا کہ کوکنگ آئل اور گھی کی قیمتوں میں یکمشت 200روپے سے زائد فی کلو کا اضافہ ہوگیا۔چاول کے دام بھی دیکھتے ہی دیکھتے 180روپے سے بڑھ کر 280روپے کلو ہوگئے۔مرغی کا گوشت160روپے کلو سے ایک دم 320روپے کلو ہوگیا۔ آنے والے دنوں میں آٹا، چینی، دالوں اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی اضافے کا خدشہ ہے۔اس صورتحال کے تناظر میں کچھ محب وطن قسم کے لوگوں نے نہایت مفید اور صائب مشورے بھی دیئے ہیں جن پر ارباب اختیار و اقتدار کو ضرور غور کرنا چاہئے۔ان کا کہنا ہے کہ صدر، وزاعظم، گورنر، وزرائے اعلیٰ،وفاقی و صوبائی وزراء، چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینٹ، سپیکر و ڈپٹی سپیکرز،سینٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی پارلیمانی کمیٹیوں کے چیئرمینوں و اراکین،اعلیٰ افسروں،سرکاری محکموں، نیم سرکاری اور خود مختار اداروں کے ڈائریکٹر جنرلز، ڈائریکٹروں، سی ای اوز اور لاکھوں میں تنخواہیں پانے والے دیگر افسروں کا سرکاری فیول ختم کیاجائے۔کیونکہ ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں جتنا پٹرول استعمال ہوتا ہے اس کا 45فیصد حصہ قومی خزانے سے سرکاری افسروں سمیت اعلیٰ حکام کی گاڑیوں میں ڈالا جاتا ہے۔ججوں، جرنیلوں اوربڑے بیوروکریٹس سمیت گریڈ انیس سے اوپر کے افسروں کو ایک ہزار سی سی تک کی ایک گاڑی کا حق دار قرار دیا جائے اور اس میں پٹرول اپنے جیب سے ڈالنے کا پابند بنایاجائے۔اسی طرح نہ صرف لاکھوں لیٹر پٹرول کی بچت ہوگی بلکہ سڑکوں پر وی آئی پی موومنٹس میں بھی خاطر خواہ کمی آئے گی۔اور پٹرول کی قیمت خود بخود 100روپے لیٹر پر
آجائے گی۔ہماری آواز اتنی توانا تو نہیں کہ آئی ایم ایف تک پہنچ جائے کہ وہ ہمارے ملک کی اشرافیہ کی عیاشیاں ختم کرنے کی شرط لگا دے۔تاہم اپنے ملک کے حاکموں سے ہم التجا کر سکتے ہیں کہ آپ نے اب تک ”وسیع تر قومی مفاد میں“ بہت سے کام کئے ہیں اللہ کی رضا، عوام کی بھلا اور ملک کی بقاء کے لئے اگر وہ اشرافیہ کی شاہ خرچیوں اور عیاشیوں پر تھوڑی سی کٹ لگادیں توعوام کو بھوک افلاس کے ہاتھوں بے وقت مرنے سے نجات مل جائے گی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔