داد بیداد۔۔۔جانور شماری۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

کس نے کہا کہ گدھے کسی شمار میں نہیں آتے، ہم نے اس قول کو غلط ثا بت کیا ہے وطن عزیز پا کستان میں جوتا زہ صورت حال ہے اس کی رو سے گدھوں کی تعداد 57لا کھ ہو چکی ہے جبکہ گھوڑے ابھی 5لا کھ سے بھی کم ہیں اور یہ بات باقاعدہ جا نور شماری کے بعد با قاعدہ اعداد و شما ر اور با ضا بطہ ثبو توں کے ساتھ لکھی گئی ہے، اس بات کی خو شی ہو ئی کہ شمار کرنے والوں نے مردم شماری نہیں کی ور نہ ہر طرف سے تنقید کے تیر برستے، ہر مکتبہ فکر اس کی مذمت کرتا ہر قبیلہ کہتا کہ میرے قبیلے کی آبادی کم دکھا ئی گئی حا لانکہ ہمارے ہاں کثرت اولاد پر کوئی قدغن نہیں اور آبا دی میں دھڑا دھڑ اضا فہ ہو رہا ہے سیا سی جما عتیں اس بنیاد پر ووٹر لسٹ میں کیڑے نکا لتے حلقہ بندیوں کے خلاف عدالت سے رجوع کر تے اور وہ اودھم مچا تے کہ خدا کی پنا ہ!گدھے اور گھوڑے دونوں بیچارے بے زبان ہیں نہ ان کا کوئی سیا سی ایجنڈ ا ہے نہ ان کے قبیلے کا کوئی چوہدری الیکشن لڑ نے جا رہا ہے نہ ان کے قبیلے کو اگلے الیکشن کے بعد کسی بڑے پرا جیکٹ کا ٹھیکہ لینا ہے نہ ان کے قبیلے کو وزارت ملنے کے بعد نیا کار خا نہ لگا نا ہے اس لئے انہیں اپنی آبا دی کے کم یا زیا دہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑ تا ہم نے گدھوں اور گھوڑوں کی آبادی کے بارے میں تازہ ترین خبر پڑھی تو ہمیں کوئی تعجب نہیں ہوا فارسی کے شاعر شمس تبریز نے 800سال پہلے کہا تھا کہ چاند کا دور آیا ہے اور چاند کے دور میں گھوڑوں کی جگہ گدھوں نے لے لیا ہے ان کا شعر ہے اسپ تازی شدہ مجروح بزیر یا لا ن طوق زریں یمہ در گردن خر می بینم بوجھ لا د نے کا مورہ گھوڑے کی پیٹھ پر ہے جبکہ زرین ہمہ ہار گدھے کے گلے میں ڈالا گیا ہے اب خیر سے چاند کادور اپنے عروج پر ہے اور بقول شاہ صاحب یہ گدھے کا دور ہے ہمارے بڑوں نے باد شاہوں کے زما نے میں ایک مقولہ مشہور کیا تھا کہ ضرورت کے وقت گدھے کو باپ بھی بنا یا جا سکتا ہے اب تو ایسا زما نہ آگیا ہے کہ گدھا بلا ضرورت باپ بن کے بیٹھ جا تا ہے یہ چند سال پہلے کی بات ہے جب چائنہ پا کستان اکنا مک کاریڈور (CPEC) کا غلغلہ بلند ہوا تو سب سے زیا دہ زور گدھوں پر دیا گیا یہاں تک کہا گیا کہ چین کو گدھے بر آمد کرنے کے لئے ملک کے دو صو بوں میں گدھوں کی افزائش نسل کے فارم بنا ئے جائینگے اور چین میں گوشت کی ضرورت پوری کرنے کے لئے مطلوبہ نسل کے گدھوں کی آبادی میں اضا فہ کرینگے جب گدھوں کی ایکسپورٹ سے ہمیں زر مبادلہ ملے گا تو گدھوں کے طفیل ہماری معیشت مستحکم ہو جا ئیگی اس پر شاہ صاحب نے گرہ لگا یا تھا جس معیشت کا انحصار گدھوں پر ہو اُس معیشت کا خدا ہی حا فظ، تفنن برطرف اگر ایکسپورٹ نہ بھی کریں ملک کے اندر بھی گدھوں کو مفید کا موں میں کھپا یا جا سکتا ہے مثلاً ووٹر لسٹ میں گدھوں کا اندراج کیا جا ئے تو ہماری جمہوریت کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی مگر اس میں ایک قبا حت ہے مفکر پا کستان علا مہ اقبال نے جمہوری نظام میں گدھوں کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ 200گدھوں کے دما غوں کو یکجا کیا جا ئے تو ایک عاقل با لغ انسا ن کی فکر اور سوچ پیدا نہیں ہو سکتی، شاہ صاحب کہتے ہیں کہ علا مہ اقبال کی بات سر آنکھوں پر انہوں نے 200گدھوں کی شرط رکھی ہے ہم اگر 201گدھوں کے دما غ یکجا کریں تو کام بن سکتا ہے ویسے سچی بات یہ ہے کہ ہم انسا نوں کے ووٹوں سے جو نما ئیندے منتخب کر تے آئے ہیں گدھوں کے ووٹوں سے ان سے برے نما ئیندے نہیں آئینگے البتہ گدھوں کو پو لنگ سٹیشن میں قواعد و ضوابط کا پا بند بنا نا مشکل ہو گا شاہ صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے پو لنگ سٹیشنوں پر جو کچھ ہو تا ہے اُس میں صرف دو لتی ما ر نے کی کمی ہے یہ کمی گدھے پوری کرینگے، جہاں تک دولتی مار نے کا سوال ہے اس پر فلسفی شاعر غنی خا ن کا خوب صورت قطعہ یا د آتا ہے غنی خا ن خد اکی بار گاہ میں سوال کر تا ہے کہ مجھے حکمرا نی کی آفت سے دور رکھو، ربا اومی ساتہ لہ دے آفتہ حکمرا نی جو ہے سرخ لعلوں سے مزین ایک زین ہے یہ زین کسی بڑے گدھے کی پیٹھ پر لا د دو، چرتہ غٹ خر تہ پہ شاکڑہ دا دسرو لعلو نو کتہ، پھر اس گدھے کو میرے بارے میں نصیحت کرو، اونصیحت ورتہ اوکڑہ زما لہ بابتہ، گورہ فہم کوہ دے لہ خرہ! چرتہ غنی ونہ وہے پہ لتہ، دیکھو غنی کا خیال کرو ایسا نہ ہو کہ تم غنی کو دولتی جھا ڑدو، گدھے کو ووٹ کا حق دینے میں کئی قبا حتیں ہیں مگر اس کے فوائد نقصا نات سے زیا دہ ہیں مثلاً سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ووٹ کا حق دیا گیا تو نما ئندگی کا حق بھی دیا جا ئے گا گدھوں کے نما ئندے اسمبلی میں جا ئینگے تو سپیکر کے ڈائس پر حملے کے وقت ایک ہی دولتی سے مسئلہ حل ہو جا ئے گا ایجنڈے کی کا پیاں پھاڑ نے اور ڈائس کے سامنے دیر تک غل غپا ڑہ کر نے کی نو بت نہیں آئیگی اچھی بات یہ ہے کہ پہلی بار ملک میں 57لا کھ گدھوں کی گنتی ہوئی ہے پھر کوئی گدھا یہ نہ کہے کہ ہم کسی شمار میں نہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔