فرینچائز پولو: جشنِ شندور تنازعہ کا واحد حل …ظہورالحق دانش

ہمارے پیارے دوست خالد بن ولی شہید چھ سات سال پہلے پولو گیم کو کمرشیلائز کرنے کے حوالے سے ایک آئیڈیا پر کام کر رہے تھے۔ وہ آئیڈیا “فرینچائز پولو” کا تھا۔ اس آئیڈیا کو الفاظ میں ڈھالنے اور کانسپٹ نوٹ وغیرہ کی لکھائی میں کئی اور دوستوں سمیت انیس الرحمٰن صاحب اور میرا بھی ایک حقیر کنٹریبیوشن شامل تھا۔ اُس کی سوچ یہ تھی کہ آج کل کے مہنگے دور میں پولو جیسے مہنگے گیم کا روایتی انعقاد کھلاڑیوں اور انتظامیہ دونوں کے لیے مشکل بنتا جا رہا ہے۔ کھلاڑیوں کو حاصل ہونے والے مراعات و انعامات کے مقابلے میں گھوڑے پالنے پر اُن کے ہونے والے خرچہ جات کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض اچھے کھلاڑی پولو کھیلنا اور گھوڑا پالنا مجبوراً ترک کر دیتے ہیں۔ اس تناظر میں پولو گیم کو کمرشیلائز کرنا بہت ضروری ہے، تاکہ کھلاڑیوں کو کماحقہٗ مراعات ملیں اور انتظامیہ و حکومت پر بھی انتظامی خرچہ جات کا بوجھ کم پڑے۔ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے سے پہلے خالد جامِ شہادت نوش کر گئے۔ آج شندور پولو فیسٹول کو لے کر چترال گلگت کنٹرووَرسی کے حوالے سے کچھ تحریریں اور کمنٹس پڑھنے کو ملتے ہیں تو اِس ہلکی پھلکی تنازعہ کا واحد حل “فرینچائز پولو” میں نظر آتا ہے۔ پولو چترال اور گلگت بلتستان دونوں علاقوں کا روایتی اور تاریخی سپورٹ رہا ہے۔ شندور کے آس پاس رہنے والے لوگ پولو سے جنوں کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تاریخ و ثقافت سے جڑے ایک کھیل کے انعقاد کو تنازعہ کا شکار بنانا دونوں طرف کے عوام کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ ایسی صورت میں حکومتِ وقت کو چاہیے کہ مستقبل کے لیے جشنِ شندور میں فرینچائز پولو کے آئیڈیا اور اس کے امکانات پر غور کرے۔ خالص چترال و گلگت ٹیموں کے بجائے فرینچائز قائم کیے جائیں، چاہے وہ فرینچائزز گلگت اور چترال کے مختلف اضلاع یا دیہات وغیرہ کے ناموں پر ہی کیوں نہ ہوں۔ مگر یہ پابندی ختم کی جائے کہ گلگت والے کھلاڑی صرف گلگت کے لیے کھیلیں گے اور چترال کے کھلاڑی صرف چترال کے لیے۔ کھلاڑیوں کے انتخاب کو فرینچائز اور سپانسرز کے لیے اوپن رکھا کیا جائے۔ اور حکومت/انتظامیہ مختلف فرینچائزوں سے فیسٹیول میں رجسٹریشن کی مد میں بھاری فیس وصول کرے۔ ساتھ ساتھ پولو گراؤنڈ کے اسٹیج کے آس پاس والی نشستوں میں سے ہزار دو ہزار نشستوں کے لیے ٹکٹ جاری کرے۔ تھوڑی بہت حکومتی فنڈ کے ساتھ ملا کر یہ پیسے فیسٹول کے انتظامات کے لیے کافی ہونگے۔ ایک اور صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حکومت/انتظامیہ شندور فیسٹیول کے انتظام کے لیے بھی سپانسر اور ڈونر کا بندوبست کرے۔ پیسے اُن سے لے لے اور انتظامات خود کرے۔ کرنے سے کیا نہیں ہوتا! فرینچائز پولو کس طرح فیسٹیول کے اردگرد گلگت بلتستان چترال تنازعے کا حل ثابت ہوگا؟ چلیں مثال سے سمجھتے ہیں۔ فرض کیجیے ایک فرینچائز کا نام ہوگا “چترال سایورج” یا “بلتستان کومائیت”۔ فرض کریں اس فرینچائز کو حبیب بنک پاکستان یا بی جان ہوٹل سپانسر کریگا اور ٹیم ترتیب دینے کے لیے گلگت، چترال لوئر، ہنزہ، چترال اپر، سکردو، دروش، این ایل آئی، چترال سکاوٹس اور لیویز سے چن چن کے کھلاڑی لے گا۔ کھلاڑیوں کے استعداد اور مہارت کے اعتبار سے ان کے لیے مراعات مقرر کریگا۔ یوں فری سٹائل پولو کھیلنے والے علاقوں کے کھلاڑی اپنی مرضی اور آزادی سے جس فرینچائز میں جانا چاہیں جا سکیں گے۔ نتیجتاً ہر ایک ٹیم گلگت اور چترال کے کھلاڑیوں پر مشتمل ہوکر بنے گی۔ گلگت و بلتستان نام والے فرینچائزوں میں چترال کے کھلاڑی بھی کھیلیں اور چترال کے نام والے فرینچائزوں میں گلگت بلتستان کے کھلاڑی بھی کھیلیں گے۔ اور یوں شندور فیسٹول کے اردگرد گلگت بلتستان چترال کا جعلی تنازعہ اور منفی جذبات خود بخود ختم ہونگے۔ سارے لوگ ساری ٹیموں کو اپنی ٹیم سمجھیں گے، اور کھیل کا سپورٹ جذباتی علاقائی نسبت سے زیادہ خالص سپورٹسمین شِپ کی خاطر کرینگے۔ کھلاڑی اچھے مراعات پر خوش ہونگے، انتظامیہ و حکومت اچھے انتظام پر خوش اور دونوں طرف کے عوام غیر متنازعہ اور محبتوں والے فیسٹیول پر خوش ہونگے۔ ہم خرمہ و ہم ثواب۔ اگر فرینچائز پولو کو کامیاب کر پاتے ہیں، تو وہ دن دور نہیں جب پولو کے بین الاقوامی کھلاڑی بھی اس ایونٹ میں شامل ہونے آئیں گے، اور جشنِ شندور فری سٹائل پولو ایک بین الاقوامی اِسپورٹ ایونٹ کی حیثیت حاصل کرے گا۔ چاہے اس حقیر تجویز پر کوئی غور کرے یا نہ کرے، ہمارا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔ ہم محبت و رواداری اور اپنے علاقوں اور اپنے لوگوں کی ترقی و خوشحالی کے امکانات کے خواب دیکھتے رہیں گے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔