دھڑکنوں کی زبان…”معاوضے کا خوف “….محمد جاوید حیات

موضوع” معاوضہ نہ ملنے کا خوف“ ہونا چاہیۓ تھا لیکن ہمارے ہاں معاوضہ ملنے نہ ملنے دونوں کا خوف لاحق رہتا ہے مثلا ابھی ابھی اعلان ہوا تنخواہ بڑھی لیکن خوف دامن رہا کہ کوٸ شوشہ چھوڑا جاٸے گا ۔۔ایسا ہی ہوا پنشن بند، ٹیکس، مراعات کی بندش، پھر فلک بوس مہنگاٸی یہ سچ میں معاوضہ بڑھنے کا ہی تو خوف ہوا ۔۔فلاحی ریاستوں میں مزدور، ریاست کے ملازمیں اور اہل کاروں کی فلاح و بہبود ترجیح ہوتی ہے ۔اگر ریاست کے بڑے مزہ کریں اور عام عوام در در کی تھوکریں کھاٸیں تو ریاست فلاحی ریاست نہیں کہلاتی ۔پاک سرزمین میں ہم سب سوالیہ نشان ہیں ہمارے ہاں ”اشرافیہ“ معاشرے کا شریف اور نجیب طبقہ نہیں ایک ”گروپ اف لوٹیرا “ ہے جو قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں لوٹتا ہے اور ریاست کو مفلوج کرکے رکھ دیتا ہے ۔۔بات کہنے کی ہے کہنے کی نہیں بھی ہے کہ دنیا میں اسلام کے نام لیووں کی جتنی بھی ریاستیں ہیں وہ ان اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال ہیں ۔اگر ملک کا حکمران خود قربانی کے لۓ تیار نہ ہوجاۓ اگر اشرافیہ اپنی عیاشیوں سے فرصت نہ پاۓ تو وہاں عام یعنی عوام کو ان سے کس خیر کی امید ہوگی ۔یہ جنگل ہے یہاں کوٸی رستکاری نہیں ۔۔مزدور مالک کے ہاتھوں پیمال ہے۔اس کو کام کرتے ہوۓ بھی معاوضے کا خوف ہے کہ ملے گا یا نہیں ۔ڈرائیور شاید سواری بیٹھا کے بھی یہ سوچے کہ کرایوں پہ جگھڑا ہو گا۔ٹھیکہ دار کو یہ ڈر ہے کہ انجینٸر اس کا بل پاس نہ کرےگا مزدور کو مزدوری کہاں سے دے گا ۔پولیس کا آفیسر نہیں سپاہی فیلڈ میں ڈیوٹی پہ ہزار بار سوچے گا کہ مجھے کوٸی ٹی اے یعنی سفری خرچہ اور ڈی اے یعنی روزانہ کا معاوضہ جو اس کے آفیسر کو ملتا ہے اس کو ملے گا کہ نہیں ۔ماسٹر صاحب کو خوف کہ الیکشن کی فہرست بنانے گھر گھر رگڑا کھانے امتحانی ڈیوٹی مردم شماری وغیرہ کامعاوضہ ان کو ملے گا کہ نہیں ۔۔پھر تنخواہ جو ریاست کے غریب ملازمین کا مہینے کا معاوضہ ہے بدقسمتی سے اس کا بھی خوف رہتا ہے ۔۔ملک خداداد میں جس اشرافیے کا ذکر ہوا ہے وہ تا حیات مراعات یافتہ ہوتا ہے اس کی مراعات کا کوٸی پوچھتا نہیں کسی سرکاری یا سول آفیسر کی مراعات پر کوٸی بات نہیں کرتا ۔پارلیمنٹیرین کی تا حیات مہربانیوں جس کا دوسری زبان میں ”پنشن “ نام رکھا جاسکتا ہے اس کا کوٸی ذکر نہیں ہوتا ۔ کسی پنشن یافتہ جج صاحب کی مراعات کا ذکر نہٕیں ہوتا ۔کسی استاد کسی کالج کے لکچرر کسی وال مین کسی اپریٹر جن کو مہینے میں چند ہزار روپے پنشن کے نام پہ ملتے ہیں ان پر پارلیمنٹ میں، بجٹ میں، مباحٹوں میں ،دوسرے ممالک اور ہمارے آقا IMF اور ورلڈ بنک سے قرض لیتے ہوۓ شرائط رکھی جاٸیں گی ۔ کہ انہ پر ٹیکس لگایا جاۓ ۔ان کی پنشن خزانے پر بوجھ ہے بند کیا جاۓ ۔ہر بجٹ میں ان کو ڈرایا جاۓ گا وہ مسلسل معاوضے کے خوف میں مبتلا رہیں گے ۔۔وہ ریاست کے ملازم ہونگے اشرافیہ سو رہا ہوگا آفیسر شاہی نیند کے مزے اڑا رہا ہو گا وہ صبح تڑکے دفتروں کے سامنے ڈیوٹی پہ موجود ہونگے ساتھ معاوضے کی فکر ہوگی کہ اس ماہ معاوضہ ملے گا کہ نہیں ۔ان کی اپنی جان کی پڑی ہوگی ۔ اس حالت مخدوش حالت کہا جا سکتا ہے ۔۔ان بےچاروں کی فریاد صدابہ صحراہے ۔ان کا ہمنوا کوٸی نہیں ۔۔ان کی ماں ان کی ریاست کن ہاتھوں میں ہے یہ انگشت بدندان ہیں ۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔