کہانی کی پہلی کتاب…تحریر:تقدیرہ خان

پروفیسر ظفر سلطان علم دوست اور ہمدرد انسان ہیں۔وہ نہ صرف یونیورسٹی کے بچوں کو اپنا علمی خزانہ بانٹتے ہیں بلکہ ان کی تربیت بھی کرتے۔ پروفیسر صاحب اپنی اسطاعت کے مطابق کتابیں خرید کر بچوں میں مفت تقسیم کرتے ہیں بلکہ لائبریریوں اور اہل ذوق کو ہدیہ بھی کرتے ہیں۔ میری خوش قسمتی کہ میں بھی ان کی فہرست میں شامل ہوں۔ دو روز قبل پرفیسر صاحب میرے گھر آئے اور ملازمہ کو ایک کتاب دے کر چلے گئے۔ یہ ہے “کہانی کی پہلی کتاب” جس کے مصنف انوار ایوب راجہ ہیں۔ کتاب کا ٹائٹل بذات خودایک کہانی ہے جسے اہل ذوق ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ٹائٹل تخلیق کاعکس ہے اور اربعہ عناصر کا ترجمان ہے۔ انوار ایوب راجہ نے اربعہ متناسب کو ٹائٹل کی صورت میں پیش کیا ہے اور دیکھنے والے کو چوتھا عدد معلوم کرنے کی دعوت دی ہے۔ میرے نزدیک یہی وہ چوتھا عدد ہے جسے معلوم کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ وہ جو چوتھا عدد معلوم کرنے کا ہنر جانتے تھے انہیں ہمارے صحافیوں، جرنیلوں،سیاستدانوں اور کسی حد تک ججوں نے مل کر راندہ درگاہ کیا تاکہ آئندہ کوئی شخص چوتھا عدد معلوم کرنے کی جرأت نہ کرئے۔ انوار کی کہانیوں کا آغاز اسی چوتھے عدد کی جزیات تلاش کرنے سے ہوتا مگر اسے اس کہانی کے سفر میں وہ ہیت دان، حساب دان، معیشت دان اور فلاسفر نہیں مل رہا جو اس گھتی کو سلجھائے اور بائیس کروڑ انسانوں کو زرداریوں، شریفوں، مولویوں اور خود ساختہ دانشورصحافیوں کی فریب کاریوں سے نجات دلائے۔ دو روز پہلے جب انوار ایوب راجہ کی کتاب میرے ہاتھ میں تھی تو ٹیلی ویژن پر مریم نواز بھاشن دے رہی تھی کہ میرے خاندان کے سوا کوئی شخص چوتھا عدد معلوم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ جی ہاں۔ یہ وہی خاندان ہے جس نے اپنی ترقی کا آغاز ایک مستری خانے سے کیااور پھر چوتھے عدد کی تلاش میں سارا ملک لوٹ کر اثاثے بیرون ملک منتقل کر دیے۔ شریفوں کی دیکھا دیکھی زرداریوں نے بھی چوتھے عدد کی تلاش میں باقی ماندہ ملک کنگال کیا اور قوم کو بد حال کر دیا۔
انوار ایوب راجہ کی کہانیاں مختصر مگر معنی خیز ہیں۔ میرے نزدیک یہ کہانیاں نہیں بلکہ نوحے ہیں۔جب وہ تھر کے بھو کے پیاسے بچوں کی موت کا ذکر کرتا ہے تو مجھے زرداری اس کا بیٹا اور وزیر اعلی مرادعلی شاہ نظر آتا ہے۔ زرداری کہتا ہے کہ یہ غریبوں کی پارٹی ہے۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ قومی لٹیروں کی پارٹی ہے۔ اگر غریبوں کی پارٹی ہوتی تو تھر میں کوئی بچا بھوک اور پیاس سے نہ مرتا۔ انوار کی یہ کہانی جس کا عنوان “لب پہ آتی ہے دعا۔۔۔” انگنت کہانیوں کا نچوڑ ہے۔ ایک طرف سندھ میں مفلسی کا راج ہے اور دوسری طرف روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے عوام کی اذیتوں سے بے خبر عیش و عشرت کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔
سکندر اعظم ہندستان سے واپسی پر مکران کے صحرا سے گز رہا تھا اور سپاہ غلط راستے کی چناؤ کی وجہ سے بھوک پیاس سے نڈھال تھی۔ سپاہیوں کی طرح سکندر بھی اسی حالت میں تھا کہ ایک جرنیل پانی کا پیالہ لے آیا۔ سکندر نے پوچھا کہ باقی لوگوں نے بھی پانی پیا ہے تو جرنیل نے نفی میں سر ہلایا۔ یہ دیکھ کر سکندر نے پانی ریت پر گر دیا او کہا بادشاہ کو زیب نہیں دیتا کہ اس کی رعایا بھوکی وپیاسی ہو اور وہ روٹی کے ٹکڑے اور پانی کے پیالے کو اپنا حق سمجھے۔عوام کی سانسوں پر ٹیکس لگانے والا چودہ جماعتی اتحاد جس کا قائد شہباز شریف ہے مگر اسے اپنا حق سمجھتا ہے۔
یہ فیصلہ کو ن کرے کہ جو قومی خزانہ لوٹنااور عیش و عشرت کی زندگیاں گزانہ اپنا حق سمجھتے ہیں انہیں اقتدار پرمسلط کرنا کس کا جرم ہے۔ جب سارے محافظ، منصف اور مصلح مجرم بن جائیں تو قومیں ذلت کی زندگی گزانے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
اس ضمن میں لکھی گئی دوسری کہانی کا عنوان “محرومیاں “ہے۔ ہماری اشرافیہ کی محرومیاں ہر سال نئی گاڑی، نیا اور جدیدفرنیچر، بیرون ملک چھٹیاں گزارنا، بچوں کی تعلیم کے لئے امریکہ اور برطانیہ کی نامور یونیورسٹیوں میں داخلے،مریم نواز اور بلاول کے لائف سٹائل خصوصاً لباس سے ہم آہنگی، دنیا کے مشہور کلبوں کی ممبر شپ اور دیگر درجنوں نفسیاتی اور نفسانی خواہشات کی بر وقت تکمیل ہے۔ انوار لکھتا ہے کہ دوسری طرف اللہ وسائی، طیبہ،ارجن کمار، ماروی اور شیر علی کی کوئی مجبوری نہیں۔ وہ آج صبح تھر پارکر میں فاقوں اور پیاس کی نظر ہو گئے ہیں۔ اگلے صفحہ پر لکھی کہانی کا عنوان “کیا یہ کباب حلال ہے”یہ ایک برٹش پاکستانی کی کہانی ہے جوشراب کے نشے میں دھت کسی کباب کی دکان پر جا کر پو چھتا ہے کہ حاجی صاحب کیا یہ کباب حلال ہے۔ حاجی صاحب اس کے منہ پر زور دار تھپڑ مار کر دکان سے باہر نکال دیتے ہیں۔ وہ شراب کے نشے میں اس قدر دھت ہوتا ہے کہ اسے کچھ یاد نہیں رہتا۔ اگلے روز وہ اپنی بیوی سے پوچھتا ہے بشریٰ کل رات حاجی صاحب نے مجھے کیوں مارا تھا۔ بشریٰ کہتی ہے کہ تم شراب میں دھت حاجی صاحب سے پوچھ رہے تھے کہ کیا یہ کباب حلال ہے۔
یہ کہانی پڑھ کر حالیہ عدم اعتماد آپریشن کی جھلکیاں سامنے آگئیں۔ سندھ ہاؤس میں عوامی نمائیندوں کی عیاشیاں، پی سی ہوٹل میں مال حرام کے کریٹ، دنیا کی مہنگی ترین شرابوں کی لگا تار ترسیل اور مجرموں کی گھناؤنی اور ڈرامائی شکلیں۔ کاش کوئی حاجی صاحب ان قومی مجرموں کے منہ پر تھپڑ مارکر انہیں سندھ ہاؤس یا پھر پی سی ہو ٹل سے باہر پھینک دیتا۔ کاش کوئی جج اس پر از خود نوٹس لیتا اور پو چھتا یہ حرام کا مال کہاں سے آیا ہے اور ان سب کو اسمبلیوں کے بجائے جیلوں میں بھجوایا جاتا۔ مگر یہ ہو جاتا تو پھر تین ماہ کے اندر اس قوم کا بُرا حال کو ن کرتااور اپنی تجوریاں بھر نے کا کام پائیہ تکمیل تک کیسے پہنچتا۔
کتاب کا سر نامہ مشہور سفرنامہ نگار اور ناول نگار جناب یعقوب نظامی نے لکھا ہے۔
نظامی صاحب نے انوار ایوب راجہ کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے عارف کھڑی، رومی کشمیر جناب میاں محمد بخش ؒ کا یہ شعر قلمبند کیا ہے۔
شیش محل وچ کُتا وڑ یا تے اُ س نوں سمجھ نہ آ وے
جدھر ویکھے اُدھر اُس نوں کُتا ہی نظری آوے
میرا بس چلے تو یہ شعر اسلام آباد کی سب سے بلند عمارت پر لکھوا دوں تاکہ عام لوگ کُتوں اور انسانوں میں فرق کرنا سیکھ جائیں۔ شیخ سعدی ؒ لکھتے ہیں کہ شیروں میں حیا ہوتی ہے وہ اپنا مار کر کھاتے ہیں۔کُتوں میں حیا نہیں ہوتی ہے وہ دوسروں کا کھانا بھی چھین لیتے ہیں۔ جس ملک کی اعلیٰ اشرفیہ بائس کروڑ غلاموں سے جینے کا حق چھین لے انہیں انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے۔
عوام کی نمائیندگی کی آڑ میں عوام کا حق چھین کر کھانے والا آخر انسان کیسے ہو سکتا ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا مگر اس ملک میں اسلام کا نہیں بلکہ میکاولین نظام سیاست رائج ہے۔حیرت کی بات یہ کہ ہماری دینی اور مذہبی سیاسی جماعتیں بھی اسی میکاولین طرز حکمرانی کی مقلد ہیں اور اسے جمہوریت کہہ کر اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالتی ہیں۔ میکاولی کا مشہور قول ہے کہ حکمران کو بدعہد، لومڑی کی طرح مکار اور شیر کی طرح خونخوار ہونا چاہیے۔دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں جہاں حکمران عوام دشمن، بدعہد، مکار اور خونخوار ہوں۔ نواز لیگ کا انتخابی نشان شیر ہے اور منشور چیرنا پھاڑنا اور مکاری سے عوام کو لوٹنا ہے۔ مریم نواز اور مریم اونگزیب روزانہ کی بنیادوں پر صوبہ خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان ا ور آذاد کشمیر کی حکومتوں کو وارنگ جاری کرتی ہیں کہ اگر احتجاج کیا تو رانا ثناء اللہ تمہارا برا حشر کرئے گا۔ کیا اعلیٰ عدلیہ اور محافظ اداروں کے سربراہوں کا فرض نہیں کہ وہ ان لوگوں سے پوچھے کہ کیا راناثناء اللہ پنجاب کا بادشاہ ہے جو ہمسائیہ ملکوں کے مسلمانوں کو پنجاب داخلے پر قتل عام کا حکم دے گا۔ کیا رانا ثناء اللہ نے اپنے حصے کا پاکستان الگ کر لیا ہے۔ اگر ان خواتین کے ملک دشمن بیانات اور رانا ثناء اللہ کی بازپرس نہ ہوئی تو اس کے نتائج اچھے نہ ہونگے۔ اسلامی طرز سیاست و حکومت، محبت،رواداری اور انسیت کا ماحول پیدا کرتی ہے نہ کہ درندگی اور خونخواری کا ماحول پیدا کرتی ہے۔ ماڈل ٹاؤن کے بعد حالیہ تحریک عدم اعتماد کے بعد جو کچھ اس ملک میں ہوا اور جو آئیندہ ہونے والا ہے وہ میاں شریف کے خاندان کی حکمرانی کے لئے تو شاید بہتر ہو مگرملک کے لئے ہر گز بہترنہیں ہوگا۔ بھٹو کا نعرہ تو روٹی، کپڑا اور مکان تھا مگر انتخابی نشان تلوار تھا۔ بھٹو نے نعرے کو پیچھے چھوڑ دیا اور سیاسی تلوار سے پہلے ملک دو لخت کیا اور پھر مخالفین کی گردنیں ناپیں۔ زرداری کا نشان تیر ہے اور تیر نے ملک کے ہر غریب کا سینہ چھلنی کر رکھا ہے۔ انوار ایوب راجہ کی کتاب کا ٹائٹل جس عدد کو تلاشنے کی دعوت دیتا ہے اس میں تیر، تلوار، لومڑی اور شیر کی نہیں بلکہ اللہ کے حکم کی تابعداری اور مخلوق خدا سے انسیت کا پیغام ہے۔
انوار کی ہر کہانی ہمارے سماجی اور سیاسی رویوں پر طنز کا تیر اور تازیانہ ہے۔ وہ چند سطری کہانی میں ایک مکمل کتاب سمو دیتا ہے اور پڑھنے والا اگر درد دل رکھتا ہو تو اسے پاکستا ن کی پون صدی پر محیط آمریت، جبری جمہوریت اور سفاکانہ طرز سیاست کی کہانیوں کے ان گنت واقعات یا د آنے لگتے ہیں۔ نظر کا پردہ بھی ایک ایسی ہی کہانی ہے جو ایک جعلی پیر کی شہرت اور شہوت کا قصہ ہے۔اس ملک کو لوٹنے والے پیروں، گدی نشینوں اور دانشوروں کی کہانیاں سیاسی چالبازوں اور مکار حکمرانوں سے کسی طرح بھی مختلف نہیں۔میرے نزدیک انوارایوب راجہ کی یہ کتاب ہر طالب علم کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ شیخ سعدی ؒ لکھتے ہیں۔
عاقبت گرگ ذادہ گرگ شود
گرچہ با آدمی بزگ شود
اب بائیس کروڑپاکستانیوں پر منحصر ہے کہ کسی انسان کی قیادت قبول کرتے ہیں یا پھر انسان نما گرگ ذادوں کو لیڈر مان کر اپنی عزت نفس اور ملک کی قربانی دینے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ تیر، تلوار، شیر، لومڑی یا انسانیت، آدمیت اورخلوص و محبت؟ فیصلہ عوام نے کرنا ہے جو وہ پچھتر سالوں سے نہیں کر پائے۔انصاف کے تقاضے پڑھ کر ماڈل ٹاؤن کی وہ معصوم بچی یاد آ جاتی ہے جسکی حاملہ ماں کے پیٹ پر شیر پنجاب اورخادم اعلیٰ جو اب خادم پاکستان بن چکے ہیں کے حکم پر پنجاب پولیس کے کس شیر جوان نے گولی مار کر شہید کر دیاتھا۔ بچی رو رو کر پوچھ رہی تھی کہ میری ماں کا کیا قصور تھا۔ صدیق کا نجو کے بیٹے نے بھی ایک بیوہ ماں کے اکلوتے معصوم بیٹے کو تفریح طبع کے لئے گولی مار کر شہید کیا مگر عدلیہ خاموش رہی۔ بلدیہ فیکٹری میں زندہ جلائے گے انسانوں اور ان گنت پاکستانیوں کے قاتل امیروں اور نودولتیے شاہی خاندانوں پر کبھی عدلیہ نے غلطی سے بھی نظر نہیں ڈالی۔ جے آئی ٹی پر جے آئی ٹی اور پھر کمیشن بنتے رہے اور ایک کے بعد ایک دوسرا سانحہ رونماء ہو تا رہا۔ دس ستری یہ مختصرکہانی ہزاروں کہانیوں کا عکس ہے مگر عدل کی دیوی کی آنکھوں پر پٹی اس لئے باندھی گئی کہ وہ پانچ کروڑ فیس وصول کرنے والے وکیل کی سنے ظلم و جبر کو نہ دیکھے۔
نکند جو رپیشہ سلطانی
کہ نیا ید زگرگ چوپانی
پادشاہی کہ طرح ظلم افگند
پای و یوار ملک خویش بکند
جسطرح بھیڑیا نگہبانی نہیں کر سکتا ایسے ہی ظلم، سفاک اور بے رحم شخص سلطانی نہیں کرسکتا۔ جو حکمران ظلم کی بنیاد رکھتا ہے وہ ملک کی بنیاد کھو ڈالتا ہے۔ (شیخ سعدیؒ)

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔