داد بیداد۔۔۔معدنی دولت کے فوائد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

آج کل بیرونی قرضوں کا چر چا ہے، خزانہ خا لی کا واویلا ہے، محا صل کی کمی کا شور بر پا ہے، اس شور وغل میں قومی اثا ثوں کی نیلا می کی تجویز بھی سنا ئی دیتی ہے، یو نا ن اور سری لنکا کی طرح معا شی دیوا لیہ پن کا خد شہ بھی ظا ہر کیا جا رہا ہے حا لا نکہ پا کستان غریب ملک نہیں پا کستان معدنی دولت سے ما لا ما ل ہے سیاست کے دیوا لیہ پن نے ملک کو مصا ئب اور مشکلا ت سے دو چار کر دیا ہے صو بہ بلو چستان اور ملا کنڈ ڈویژن کے معدنیات سے استفادہ کیا جا ئے تو پا کستان کے تما م قرضے اتر سکتے ہیں اور پا کستان قرض لینے والے ملک کی جگہ قرض دینے والا ملک بن سکتا ہے گذشتہ 40سا لوں میں بلو چستان میں ریکو ڈک کے معدنی ذخا ئر پر منفی سیا ست ہو رہی ہے بلو چستان سے نکلنے والا سوئی گیس استعمال میں آرہا ہے محصو لا ت لا رہا ہے لیکن مقا می لو گو ں کو نہ گیس کنکشن دیا گیا نہ ہی گیس کی رائیلٹی دی گئی ملا کنڈ ڈویژن کا معا ملہ زیا دہ گھمبیر ہے اس ڈویژن کے 8اضلا ع میں کھربوں ڈالر ما لیت کے معدنیات کا جیو فزیکل سروے ہوا ہے، ان میں زمرد، سنگ مر مر، لو ہا، یو رنیم، کا پر، گندھگ، سوپ سٹون، اینٹی منی اور قیمتی جوا ہرات کے خزا نے ملے ہیں اب تک ان خزا نوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا یا گیا، وجہ سیا سی مصلحت اور سیا سی مدا خلت ہے محکمہ معدنیات کے ما ہرین جب پا لیسی بنا تے ہیں تو یہ ٹھیک ٹھا ک پا لیسی ہو تی ہے جب یہ پا لیسی کا بینہ میں جا تی ہے تو اس کا کباڑ ا نکا ل دیا جا تا ہے 2012سے پہلے کئی پا لیسیاں بن گئیں مگر نا کا م ہو گئیں 2006میں معلو م ہوا کہ سوات میں زمرد کی کا ن سے والی صاحب کے دور میں تر قیا تی کا موں کے لئے محا صل آتے تھے 1970سے 2006تک زمرد کی کا نوں میں سالا نہ نقصان دکھا یا جا تا تھا گویا سٹیل ملز کی طرح زمرد کو بھی کھا یا جا رہا تھا، اب بھی وہی حا لت ہے 2012میں ملا کنڈ ڈویژن کے پہاڑوں میں چھپے ہوئے معدنیات سے فائدہ اٹھا نے کے لئے معدنیات کے بلا ک بنا کر بین الاقوامی فرموں اور کمپنیوں کو لیز پر دینے کے لئے اشتہار ات شائع کئے گئے، امریکہ، کینڈا، چائینہ اور دیگر مما لک میں ”روڈ شو“ منعقد ہوئے، بیرونی کمپنیوں نے دلچسپی کا اظہار کیا بعض کمپنیوں کو لیز دینے پر پیش رفت بھی ہو ئی مگر سیا سی مدا خلت کی وجہ سے کوئی سر ما یہ کا ر یہاں نہیں آیا، ریکو ڈک کی طرح ملا کنڈ ڈویژن میں بھی کوئی کا م نہیں ہونے دیا گیا 2021ء میں نئی پا لیسی آئی جس کے تحت مقا می سرما یہ کاروں سے آن لا ئن درخواستیں ما نگی گئیں 5مہینوں کے اندر 600درخواستیں مو صول ہوئیں، رجسٹریشن فیس کی مد میں ڈیڑھ ارب روپے خزانے میں جمع ہوئے 2022میں سر ما یہ لگا نے اور معدنیات کو مار کیٹ تک پہنچا نے کا مر حلہ آیا تو پا لیسی تبدیل کی گئی پہلے حکم دیا گیا کہ خام لوہا، تانبا، اینٹی منی اور یور نیم پر کا م کی اجا زت نہیں ہو گی آدھے سے زیا دہ انویسٹر بے روز گار ہو گئے پھر حکم آیا کہ جن 600سرما یہ کاروں نے در خواستیں دی تھی وہ سب مسترد کی گئی ہیں اب بڑے پیما نے پر مائننگ کے لئے ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کو بلا یا جا ئے گا رجسٹریشن فیس کم سے کم تین کروڑ روپے ہوگی اس طرح مقا می سر ما یہ کاروں کو مائننگ کے شعبے سے خا رج کیا جا ئے گا اس پر مقا می لو گوں کو شدید تحفظا ت ہیں چترال میں کھو اور کا لاش قبا ئل کو اقوام متحدہ میں مقا می وسائل کا اصل ما لک ”انڈی جے نس“ کمیو نیٹی کی حیثیت دیکر جنرل اسمبلی کی معا شی اور سما جی کونسل (ECOSOC)میں باقاعدہ نما ئیندگی دی گئی ہے ان لو گوں کو ان کے حق سے محروم کرنا بنیا دی حقوق کی خلا ف ورزی ہو گی قوانین اس کی اجا زت نہیں دیتے معد نی دولت کے فوائد پر مقا می لو گوں کا حق ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔