اسلام زندہ ہوتا  ہےہر کربلا کے بعد… تحریر:  اقبال حیات اف برغذی

 یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عالم  فانی میں روز ازل سے مختلف نوعیت کے نشیب وفراز آتے ہیں۔ ہزاروں واقعات تاریخ کے سینے پرنقش ہوتے ہیں۔ ان واقعات میں انسانی زندگی کے مغرفت کے بلند ترین منصب پر فائز ہونے کی لاتعداد مثالین نظر آتی ہیں۔ انحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات سے لے کر صحابہ کرام اور آئمہ اطہار تک ایک ایک قدم پر ہمیں زندگی کے وہ پہلو دکھائی دیتے ہیں۔جن میں اپنی ذات کو ذات باری تعالیٰ پر فدا کیا گیا ۔کہیں تشدد سے لہولہان بلال حبشی ہیں تو کہیں کٹے ہوئے ہاتھوں سے کٹ مرنے والے جعفر طیار رضوان اللہ علیہ ایسے واقعات بھی دکھائے دیتے ہیں کہ جہان زندگی اور موت کی آخری کشمکش  سے دوچار پیاس سے نڈھال صحابی پانی پلانے والے کو دوسرے زخمی کی طرف بھیجوا دینا کہ اس کی پیاس بجھ سکے ۔ایسی مثالیں بھی نظر آتی ہیں  کہ جہاں کھجور کھاتے ہوئے صحابی عین جنگ کے عروج پر سرورکائنات صلی اللہ علیہ واسلم سے سوال کرتے ہیں کہ جنت کیسے ملے گی ۔جواب آتا ہے کہ اس جنگ  کے میدان میں شہادت جنت کاراستہ ہے وہ اپنے منہ سے کھجور نکال کر پھینک دیتے ہیں اور تلوار نکال کر کہتے ہیں کہ جب جنت اس قدر نزدیک ہے تو پھر دیر کس بات کی۔ چند لمحوں کے اندر وہ میدان کا رزار میں زخموں سے چور جنت کے حوروں کے جلو میں نظر آتے ہیں۔اگرچہ تاریخ انسانیت اور خصوصاً تاریخ اسلام اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے اور ہر واقعہ ،ہر انقلاب اور ہر داستان چند روز چند ماہ اور چندسال بعد لوگوں کے ذہنوں سے آہستہ آہستہ فراموش ہوکر تاریخ کے اوراق کی زینت بنتے ہیں مگر اس کے برعکس سانحہ کربلا ایک ایسا واقعہ ہے کہ جس کے رونما ہوئے کم وبیش چودہ سوسال بیت جانے کے باوجود ہر لمحہ ہر دن اور ہر ماہ وسال نہ صرف تازہ ہوتا ہے بلکہ اس کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جتنا امتحان سخت ہوتا ہے اس کا مقام بھی اسی قدر بلند وبالا ہوتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے “جو تمہارے پاس ہے وہ فانی ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی ہے اور ہم جزادیں گے ان لوگوں کو جنہوں نے صبر کیا ہے بے حساب”

حق تعالیٰ کے اس فرمان میں صبر کی جو معراج بتائی گئی ہے واقعہ کربلا اس کی انتہا ہے ۔ہم حضرت امام حسین اور ان کے رفقاء کی شہادت کو جب دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت ہم پر واضح ہوتی ہے کہ اسلام  اور خدائے واحد کی راہ میں قربانیان دینے والے لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کے باوجو د صرف ایک پہلو تشنہ تھا۔ اور وہ یہ کہ اگر کبھی دین اسلام پر ایساوقت آیا کہ جہاں فسق وفجور کو اسلام کہا جائے ۔جہاں حرام اور حلال میں امتیاز مٹ جائے  اور شعائر اسلام کا مذا ق اڑایاجائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جائےشہناہیت اور ملوکیت کو اسلام کا لبادہ پہنایا جائے تو ایسے حالات میں اسلام کےحقیقی شیدائی آگےبڑھ کر کس حد تک اپنا کردا ر ادا کرسکتے ہیں۔ حضرت امام حسین  نے اسلام کے اس تشنہ پہلو کر اس طرح مکمل کیا کہ تاریخ اسلام کے اس اہم سوال میں اپنی اور اپنے گھرانے کی سرخی بھر دی اور دنیا کے سامنے یہ مثال قائم کردی کہ اگر اسلام کو ایسی صورت حال سے واسطہ پڑے تو اس شمع فیروزان کے پروانے قربانی کے حوصلے سے سرشار میدان میں کود پڑیں گے ہر قسم کے مصائب ،مشکلات  اور صعوبتوں کو سہتے ہوئے اپنے خون سے صدا روشن رکھیں گے ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔