کاش آپر چترال کو بھی حسین احمد مل جاتا۔…اشتیاق چترالی

دنیا میں کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جن کی ساری زندگی جہد مسلسل کا استعارہ ہوتا ہے اور ایسے افراد کی وجہ سے ہی کائنات کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے۔یہ افراد چاہے زندگی کے کسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ان کو اپنی جدوجہد اور مشن سے عشق کی حد تک پیار ہوتا ہے ،اس کی تکمیل لیلئے وہ دن رات ایک کئے ہوتے ہیں۔
ایسے ہی ایک شخص جنگ بازار چترال سے تعلق رکھنے والے مشہور زمانہ فٹ بالر،سوشل ایکٹوسٹ،سوشل ورکر،زمانہ طالب علمی سے ہی خدمت کے جذبے سے سرشار اور عملی زندگی میں AKRSP جیسے ادارے سے عملی۔خدمت کا آغاز کرنے والے حسین احمد ہیں جنھوں نے خدمت کے شعبے میں اتنا نام کمایا ہے کہ ہر ایک ان سے واقف ہے جو شاید ہی کسی اور شخص کے حصے میں آئے۔
وہ اپنے دور کے بہترین فٹ بال پلیئر تھے جنھوں نے چترال کی ہر جگہ نمائندگی کی ہے اور پھرچترال میں فٹ بال کے فیلڈ میں موجود ٹیلنٹ اور لگاو کو دیکھتے ہوئے مستقل اس شعبے سے جڑے رہنے اور خدمت کرنے کی ٹھان لی۔فٹ بال ایسوسی ایشنز کی مختلف ذمہ داریوں پہ فائز رہے جو تا ننوز جاری ہیں اور میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔بلاشبہ چترال میں فٹ بال اور کئی ایک کھیلوں کے فروغ میں حسین احمد کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا اور ان کی خدمات کو تا ابد یاد رکھا جائے گا۔
چترال میں فٹ بال چاہے انڈر 12 سے لے ویٹرن سطح تک غرض ہر شعبے کے کھلاڑیوں کی سرپرستی اور ان لوگوں کو آگے لانے میں ان کا سب سے اہم رول رہا ہے،چترال کے پلیئرز ان کا جتنا بھی شکریہ ادا کریں یہ ان کے خدمات کا صلہ کبھی نہیں ہو سکتے۔موجودہ پر فتن اور پر آشوب دور میں جہاں انسان کو اپنے کاموں سے فرصت نہیں ملتی،اپنی سوچ فکر کرنے اور بچوں کے مستقبل کے پلاننگ کے بجائے وہ چترال اور یہاں پہ کھیلوں کے فروغ کے لئے سرگرم عمل رہتے ہیں اور اس سارے عمل میں نوجوان اور ویٹرن کھلاڑی سارے ہی ان کی خدمات سے مستفید رہتے ہیں۔
آپر چترال کو الگ ضلع بنے ابھی کافی ٹائم ہوا ہے لیکن وہاں پہ کھیلوں کے فروغ میں خاطر خواہ پیش رفت دیکھنے کو نہیں مل سکی ہے ان کی بڑی وجہ فنڈز کا فقدان اور باقی انتظامی معاملات میں ناپختگی،اس کے لئے مختص خطیر رقم کے باوجود فنڈز کی عدم دستیابی کچھ ایسے عوامل ہیں جس کی وجہ سے وہاں پہ ایسے ایونٹس کا انعقاد نہ ہونے کے برابر ہے لیکن نوجوان سوشل ورکر اور ماضی کے فٹ بال کھلاڑی محسن لال اس سعی میں سرگردان نظر آرہے ہیں جن کی ہر سطح پہ سرپرستی اور تعاون ضروری ہے،ہم دست بدعا ہیں کہ آپر چترال کے گراونڈز بھی کھیلوں سے آباد ہو جائیں اور وہاں کے نوجوانوں کیلئے ایک صحت بخش ماحول فراہم ہو سکے تاکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پہ بھی اپنے آپ کو مستقبل کے لئے تار رکھ سکیں اور ہم یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ محسن لال کی صورت میں ایک حسین احمد مل جائے جو کہ ایک نوجوان ہونے کے ساتھ ساتھ خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں تاکہ وہاں کے کھلاڑی بھی فٹ بال کے ایونٹس سے مستفید ہو سکیں اور وہاں کے نوجوان کھلاڑیوں کے لئے صحت افزاء ایونٹس منعقد ہو سکیں وہیں پہ بھی نامور کھلاڑی پیدا ہوں جو کسی بھی جگہ اپنے علاقے اور پاکستان کی بہتر انداز میں نمائندگی کر سکیں جس کی ایک جھلک بونی سے تعلق رکھنے والے مختار لال کء فرزند ارجمند اسپین میں جاکے فٹ بال میں نمائندگی کر کے آئے ہیں اور یہ بھی اظہر من الشمس ہے کہ وہاں پہ ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔فٹ بال کے علاوہ دیگر کھیلوں میں بھی نوجوان کھلاڑیوں کو موقع فراہم کرنے اور آگے لانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اپر چترال دور افتادہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے تمام شعبوں میں فںڈز سے تقریباّ محروم ضلع ہے لیکن اس دفعہ دونوں تحصیلوں مستوج اور موڑکہو/تورکہو میں نوجوان قیادت سردار حکیم اور میر جمشید الدین کی صورت میں سامنے آئے ہیں اور ان کی پارٹی کی صوبے میں حکومت بھی ہے ہم ان۔سے بھی ملتمس ہیں کہ اپنی حکومت سے اس شعبے کیلئے خاطر خواہ رقم واگزار کرائیں اور اللّٰہ پاک نے ان کو صلاحیتوں اور صوبائی حکومت کی وجہ سے عوام اور کھلاڑیوں کی بہتر خدمت کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ہم حکام بالا سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہاں پہ موجود اسپاٹس سے فائدہ اٹھائیں اور وہاں پہ مختلف ایونٹس کے انعقاد کو ممکن بنانے کے اقدامات کریں جن میں پیرا گلائڈنگ کے علاوہ دوسری معدومیت کا شکار کھیل منعقد ہو سکیں اور وہاں کے میدان کھیلوں اور کھلاڑیوں سے پھر سج۔جائیں اور عوام کو بھی ان سے محظوظ ہونے کو مواقع فراہم ہو سکیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔