ورلڈانڈیجنس ڈے کے موقع پر بمبوریت میں کالاش کمیونٹی کی ایک پر وقار تقریب

چترال ( محکم الدین ) ورلڈانڈیجنس ڈے کے موقع پر کالاش ویلی بمبوریت میں کالاش کمیونٹی کی ایک پر وقار تقریب منعقد ہوئی ۔ یہ تقریب یورپین یونین کے مالی تعاون سے اے کے آر ایس پی کی زیر نگرانی اور اے وی ڈی کی سہولت کاری کے تحت انجام پائی ۔ تقریب کے آغاز میں ورلڈ انڈیجنس ڈے کا کیک کاٹا گیا اور کالاش مرد وخواتین تالیوں کی گونج میں خوشی کا اظہار کیا گیا ۔ ورلڈ انڈیجنس ڈے کیلئے امسال کا تھیم تھا ۔ ” کہ کالاش خواتین ثقافت کو محفوظ بنانے اور آنے والی نسلوں تک منتقل کرنےکیلئےکیا کردار اداکر سکتی ہیں “۔ منیجر اے وی ڈی پی جاوید احمد نے اس دن کو منانے کی اہمیت کے بارے میں بات کی ۔ جبکہ اےکے آر ایس پی کے سید عارف حسین جان نے بتایا کہ ثقافت کے تحفظ اور اگلی نسلوں تک منتقل کرنے میں خواتین کا بہت بڑا کردارہے  اس لئے موجودہ سال کا تھیم اس حوالے سے ترتیب دیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یورپین یونین کے تعاون سے انجام پانے والےپراجیکٹ کے تین حصے ہیں۔جن میں مرد و خواتین تنظیمات کو فعال بنانا ، نوجوانوں کو ہنر کی ٹریننگ اور نوجوانوں کو مختلف صحت مند سرگرمیوں میں مدد کرنا شامل ہیں ۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کالاش کونسلر اور ممتاز سوشل ورکر لوک رحمت نے کہا کہ کالاش قبیلے کی تہذیب و ثقافت ، زبان و دستور اور مصنوعات ان کی شناخت ہیں  جن کی حفاظت از بس ضروری ہیں اسی طرح ہمارے ہریٹیج جن میں کالاش ٹمپلز ، عبادت خانے ، جشٹکان اور قبرستان وغیرہ کالاش تہذیبی و تاریخی اثرات کو ظاہر کرتےہیں ۔ کی حفاظت کے بغیر بقا کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں انہوں نے کمیونٹی کے مردو خواتین پر زور دیا کہ وہ جدید دور کے چکا چوند میں گم ہوکر اپنی تہذیب و روایات کو نہ بھولیں بلکہ اس تہذیب کے ذریعے اپنی شناخت پوری دنیا کے سامنے پیش کریں ۔ خاتون رہنما ایران بی بی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کالاش بچے بچیاں دن بدن اپنے مذہب سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔ خاص کر جو بچے سکول جاتے ہیں وہ کالاش روایات و دستور کی پابندی نہیں کرتے بلکہ اپنے مذہب کے مخالف سمت پر روان ہیں ۔ انہوں نے مثال دے کر کہا کہ کالاش مذہب میں فوتگی کے موقع کے علاوہ کسی بھی وقت مصافحہ کرنا درست نہیں لیکن آج کل یہ عام رواج بن چکا ہے ۔ اسی طرح تعلیم یافتہ بچیاں ثقافتی ہنڈی کرافٹ کی راہ میں بھی رکاوٹ ہیں اور نہ اپنی زبان میں بات کرنے کو اچھا سمجھتی ہیں ۔ اس سے خطرہ ہے  کہ بتدریج کالاش زبان وثقافت معدوم نہ ہوجائے ۔ جبکہ پہلے ہی اس کو کئی بیرونی مشکلات درپیش ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ نسل کو کالاش قاضیوں کی ہدایات پر عمل کرنا چاہیئے  تب ہی مذہب کا تحفظ ہو سکتا ہے ۔ استاد شیر عالم نے کہا کہ بہت سارے لوگ اپنی مذہب اور قومیت کی وجہ سے شناخت کئے جاتے ہیں ۔ اس لئے کالاش کے نام سے موسوم کرنے پر ناراض نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ یہی ہماری پہچان ہے ۔ انہوں نے موبائل کی یلغار سے بچنے کی ہدایت کی اور کہا کہ یہ ہماری ثقافت کیلئے زہر قاتل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بعض غیر متعلق لوگ کلاش تہذیب و ثقافت کے بارے میں بات کرتے ہیں اور اپنی طرف سے مختلف نامناسب باتیں کالاش مذہب کے ساتھ منسوب کرتےہیں ۔ اگر ہم کسی کے مذہب کے اندر دخل اندازی نہیں کرتے  تو دوسرے مذاہب کے لوگوں کو کالاش مذہب کے بارے میں بات کرنے کا کیا حق بنتا ہے ۔ اس موقع پر جبین خان ، کونسلر شیر محمد اور نیت بیگم نے بھی خطاب کیا ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔