ملت کی مقدر کا ستارہ…محمد شریف شکیب

شاعر مشرق نے کہا تھا کہ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر، ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔ عام طور پر لوگ یہ کہتے ہیں کہ اکیلے ان کے محب وطن، ایماندار، دیانت دار، فرض شناس اوراولوالعزم بننے سے کیا ہوتا ہے پورے معاشرے کی رگوں میں کرپشن، اقربا پروری، بددیانتی،جھوٹ، فریب اورمفاد پرستی کے جراثیم سرایت کر چکے ہیں اور آوے کا آوا بگڑ چکا ہے۔انسانی تاریخ اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ فرد واحد اگر معاشرے کی اصلاح کا بیڑہ اٹھائے اور راستے کے کانٹوں کو اپنے عزم صمیم سے پھلانگ کر منزل مقصود پر پہنچنے کا قصد کرے تو اس کی راہ میں حائل ساری رکاوٹیں ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہیں۔سر سید احمد خان بھی پورے ہندوستان میں وہ فرد واحد تھاجنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنے کا علم اٹھائے اکیلے نکلا تھا۔سر سلطان محمد شاہ اور نواب محسن الملک نے ان کی تحریک کو آگے بڑھایا۔اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے خواب کو تعبیر کا جامہ پہنایا۔ علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے الگ وطن کا خواب دیکھا۔محمد علی جناح نے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی ٹھان لی۔لوگ رفتہ رفتہ ان کے قافلے میں شامل ہوتے گئے کارواں بنتا گیا اورچند سالوں کے اندر ہی دنی کے نقشے پر پاکستان کی صورت میں پہلا نظریاتی اسلامی جمہوری ملک نمودار ہوا۔خیبر پختونخوا کے سب سے دور افتادہ اور پسماندہ علاقے چترال سے کچھ عرصہ قبل ایک درویش اٹھا۔انہوں نے اپنی قوم کے غریب اور ہونہار بچوں کو اعلی تعلیم دلانے کا بیڑہ اٹھایا۔ہدایت اللہ کے پاس کوئی سرمایہ نہ تھا۔بس ایک عزم مصمم تھا کچھ کر گزرنے کا جنون تھا۔انہوں نے ریجنل آرگنائزیشن فار سپورٹ ایجوکیشن(ROSE) کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔چند مخیر لوگوں کو تعلیمی وظائف دینے پر قائل کیا۔مختلف کالجوں، یونیورسٹیوں اور فنی تعلیم کے اداروں سے نادار بچوں کی مفت تعلیم کے لئے کوٹہ حاصل کیا۔تعلیمی وظائف حاصل کرنے والوں سے ان کا ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ اپنی تعلیم مکمل کرنے اور ملازمت حاصل کرنے کے بعد وہ کسی ایک غریب بچے کو تعلیم دینے کا وعدہ کریں۔گذشتہ دس پندرہ سالوں کے اندر روز فاونڈیشن کی مفت تعلیم اسکیم سے 800 سے زائد طلبا و طالبات نے استفادہ کیا۔درجنوں طلبا ایم بی بی ایس، انجینئرنگ، کامرس، کمپیوٹر سائنس اور دیگر علوم میں اعلی ڈگریاں حاصل کرکے باعزت روزگار کما رہے ہیں اور سینکڑوں طلبا و طالبات مختلف اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ہداہت اللہ کا ماننا ہے کہ ہماری قوم میں نیک کام میں ہاتھ بٹانے کا جذبہ موجود ہے اگر انہیں اس بات کا یقین ہو کہ ان کی دی ہوئی ایک ایک پائی نیک مقصد کے لئے استعمال ہو رہی ہے تو وہ اپنی کل پونجی لٹانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ان کا کہنا ہے اس بار انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ چترال سے تعلق رکھنے والے ہر افسر، مخیر خواتین و حضرات، کاروباری شخصیات اور اہل ثروت کے پاس جاکر قوم کے بچوں کی تعلیمی کفالت کے لئے اپیل کرے گا تاکہ ہمیں دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہ ہو۔اس سلسلے میں وہ انہوں نے آئندہ ہفتے چترال میں تعلیمی کانفرنس منعقد کرنے کا بھی اعلان کیا۔تاکہ دیا سے دیا جلتا رہے اور معاشرے سے جہالت، غربت اور تعصب کے اندھیرے مٹ سکیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔