خدائی خدمتگار ڈاکٹر منصور عامر (تحریر اقرارالدین خسرو )

اک بات ہے اعجازِ مسیحا مرے آگے۔۔۔
سوچ اور انسانی ذہن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ انسان کی زندگی کا ہر زاویہ اس کی سوچ ہی سے جنم لیتا ہے ۔ اسی سوچ سے انسانی جذبات کی پرداخت ہوتی ہے اور انہی کی بنیاد پر انسان کا عمل شروع ہوتا ہے۔
انسانی ذہہن کا زاویہ فکر دو قسم کا ہوتا ہے یعنی مثبت اور منفی مثبت سوچ نہ صرف محنت جستجو اور ترقی کے راستے دیکھاتا ہے بلکہ اپکی شخصیت اور کردار پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتا ہے جبکہ منفی سوچ نفرت اور ناکامی کی پرہول وادیوں میں دھکیل کر کردار اور شخصیت کو بھی بگاڑ دیتی ہے ۔ منفی سوچ کے فروع میں ہمارے میڈیا کا بھی اہم رول ہے جس میں سب کچھ برا دیکھانے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش میں لگے ہوے ہیں ایسے میں لگتا ہے اس ملک میں کچھ بھی اچھا نہیں ہورہا سب کچھ برا ہی ہے خصوصا پولیس اور ڈاکٹری کے مقدس پیشے کو بہت زیادہ بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اگرچہ کچھ برے لوگ ہر شعبے کے اندر موجود ہیں تو اچھے لوگ بھی ہر شعبے میں موجود ہیں اگر ہم کسی ایک کی برائی کی وجہ سے پورے ادارے کو بدنام کرتے ہیں تو اچھے لوگوں کی اچھائی کو سراہنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
آج میں آپ کے ساتھ ایک ایسے مسیحا کی کہانی شیر کر رہا ہوں جو پورے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کیلیے قابلِ فخر اور قابلِ تقلید ہیں۔ یہ ہیں نوجوان ڈاکٹر منصور عامر جو بی ایچ یو کوشٹ میں مسیحائی کے شعبے سے منسلک انتہائی شریف النفس اور خوش اخلاق انسان ہیں ۔ پہلی ملاقات میں مجھے ایسا لگا کہ گویا ہمارے ملک کا پہلا ڈاکٹر ہے جو اپنی ڈیوٹی کو فرض سمجھ کے کرتا ہے ۔ تقریبا دوتین ہفتے پہلے ایک بھائی کا بچہ بیمار ہوا تھا۔ ڈاکٹر عامر چونکہ بی ایچ یو کوشٹ میں ہے میں نے اپنے ننھیال سے اسکا نمبر لیکر برنس سے اسے کال کیا بچے کے بارے میں بتایا وہ تقریبا دو گھنٹے تک میرے ساتھ رابطے میں رہے اور مجھے ہدایات دیتے رہے میں ٹیلی فونک رابطے میں ہی اس سے متاثر ہوے بغیر نہ رہ سکا۔ پچھلے دنوں میں کوشٹ آیا ہوا تھا تو میری بھابھی کو کڈنی انفیکشن کی شکایت تھی جسکی وجہ سے کافی تیز بخار بھی تھا۔ عصر کے قریب عموماً ڈاکٹرز چھٹی کرتے ہیں اسی وقت میں اسے ہسپتال لیکر گیا۔ چوکیدار نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب سوئے ہوے ہیں ۔ قریب ہی ایک دوسرے شخص نے کہا کہ سوئے ہوے ہیں تو کیا ہوا جاو اسے جگاکے بتادو کہ کوئی بیمار ہے آکے اسے چیک کریں ۔ چوکیدار سیدھا اسے جگانے چلا گیا ۔ عموما ہمارے ہاں روٹین ایسا ہے کہ ڈاکٹرز سکینڈ ٹائم میں کلینک کھولتے ہیں اور پیسے لیکر مریضوں کو چیک کرتے ہیں ۔ مگر یہ دنیا کا واحد ڈاکٹر ہے جو چوبیس گھنٹے ہر قسم کی مریضوں کے لیے دستیاب ہوتا ہے ۔ چوکیدار ڈاکٹر صاحب کو جگا کر ساتھ لے آئے میں نے سوچا پہلے ڈاکٹر صاحب کا رویہ چیک کروں پھر بعد میں تعارف ہوجائے۔ ڈاکٹر صاحب آئے انتہائی خندہ پیشانی سے ملے مریض کا معائنہ کیا انتہائی مہذب اور بہترین طریقے سے مریض کی ہسٹری سنی ۔ میڈیسن تجویز کی اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ شام تک اگر بخار نہ اتر جائے دوبارہ مجھ سے رابطہ کریں۔ یقین مانیے میں حیران ہو کے اس مسیحا کو دیکھ رہا تھا جسے دفتری اوقات کار کے بعد نیند سے جگایا جاتا ہے وہ تین چار منٹ ضائع کیے بغیر مریض کے معائنے کو پہنچ جاتا ہے اور جس خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتا ہے وہ یقیناً ہمارے تمام ڈاکٹروں کے لیے قابل تقلید ہے۔ یہی ہمارے اصل ہیروز ہیں ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے انسان محترم اور کائنات سلامت ہے۔ میں تمام سوشل میڈیا ایکٹوسٹ سے گزارش کرونگا کہ اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو پروموٹ کریں انھیں ہمارے معاشرے کے سامنے لائے تاکہ دوسرے لوگ بھی ان کی تقلید کریں ۔ اور اس مضمون کی وساطت سے ڈی ایچ او اپر چترال اور ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ آپ بھی ڈاکٹر منصور عامر کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ ہمارے دوسرے ڈاکٹرز بھی ڈاکٹر منصور کے نقشِ قدم پر چل کر معاشرے کی صحیح معنوں میں خدمت کرسکے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔