پانی سر سے گزرنے کے بعد ہی پھرتی دیکھانے کے شوقین کیوں؟؟…ناصر علی شاہ

کچھ دن پہلے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال بونی اپر چترال میں ایک بچی کی ہلاکت کا آفسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا۔ ہماری سب کی دعا ہے کہ اللہ پاک بچی کو جنت نصیب کریں اور اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ ہمیں دکھ بھی ہے اور افسوس بھی۔
اس افسوسناک واقعے کے بعد لوگ متحرک ہوئے سوشل میڈیا میں بھونچال آیا تمام ہیلتھ ملازمین کو گالیوں سمیت مختلف القابات سے نوازے گئے۔ درندگی کی مثال قرار دیئے تو کسی نے قتل کہا، جو بھی تھا تمام لوگ اپنے لیول اور دوسروں سے سننے کے مطابق درست تھے کیونکہ ہمارا وطیرہ رہا ہے کہ کسی بھی معاملے کی تہہ تک پہنچے بنا رائے قائم کرنے اس رائے کا بھر پور پروپیگنڈہ شروع کرتے ہیں۔ البتہ یہ حقیقت ماننی پڑے گی کہ ہم اگر مل کر کسی اہم ایشو پر آواز اٹھاتے ہیں تو مسئلہ چاہے کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو اسے حل نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اب زرا کھل کر بات کرتے ہیں ۔۔۔
سب سے پہلے تمام ہیلتھ ملازمین جو نہ صرف ہسپتالوں بلکہ ڈیوٹی اوقات کے علاؤہ بھی گھر گھر جا کے خدمات مہیا کر رہے ہیں، اپنی خدمات کو مزید بہتر بنائیں اپنے رویوں میں مزید مثبت تبدیلی لانے کی کوشش اور عوام بھی ہیلتھ ملازمین جس میں (ڈاکٹر، نرسز، پیرامیڈیکس، کلاس فور، آئی ٹی) شامل ہیں سب کے جاب ڈسکرپشن کے بارے میں پتہ ہونا چاہیئے۔ اور ان کی خدمات کے اعتراف سمیت اپنے تیور اور ساتھ حکومت کی طرف سے سہولیات کا بھی جائزہ لیا جانا چاہئے۔
اپر چترال کو ضلع کا درجہ دئیے چار سال کا عرصہ گزر چکا ہے کچھ کام ہوئے ہیں کچھ کام تاخیر کا شکار ہیں تاخیری کاموں میں بنیادی معاملہ محکمہ صحت ہے۔ سابقہ دور میں ہسپتال کی اپگریڈیشن لئے فنڈ ملے کام شروع ہوا تھا کئی سال گزر گئے مگر تاحال تیار بلڈنگ کو ہسپتال کے حوالہ کرنے کی کوئی باتین ہوئی ہے اور نہ نمائندہ گان اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے پوچھا ہے کہ آخر صحت کا شعبہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور اس میں ابھی تک تاخیری حربے کیوں اختیار کئے جارہے ہیں۔۔؟
اپر چترال ضلع بننے کے بعد ہسپتال کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کا درجہ دے کر جدید آلات، سہولیات اور ڈاکٹر سمیت دیگر طبی عملہ کی تعیناتی کس کی زمہ داری ہے؟ کیا نمائندہ گان اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے پوچھا ہے یا عوام نے سوچا ہے؟؟؟
سوشل میڈیا کے ارسطو کوئی بیانیہ بنا کر ہیلتھ فار آل ان چترال کا نعرہ لگوائے؟ نہیں کیونکہ ہمیں پنجاب کی سیاست عزیز ہے اور ہمارا دھیاں ان تبدیلیوں پر مرکوز رہا اور اب بھی ہے۔
تمام سوشل میڈیا ایکٹوسٹ سے سوال یہ ہے کہ کیا انہوں نے کبھی نمایندوں کے نوٹس میں یا سیاسی و سماجی نمائندہ گان نےکبھی اس ایشو کو اٹھانے کی زحمت گورا کی ہے کہ ہمارے ضلع کے سب سے بڑے ہسپتال میں عملہ کم ہیں جس کی وجہ سے صبح کے وقت ایمرجنسی کا ڈاکٹر بھی او پی ڈی چلاتا ہے ، نہیں ہر گز نہیں، پھر ایسے حالات کا زمہ دار کون؟
کیا کسی نے ایمرجنسی لفظ کی تشریح کی یا پوچھا کہ ایمرجنسی بلڈنگ کا نام ہے یا اس کے اندر وہ تمام سہولیات ہونا چاہئے جو اربن شہری علاقوں کے ہسپتالوں میں ملتے ہیں؟
کیا زندہ انسانوں کی قدر وقیمت کا اندازہ مرنے کے بعد پتہ چلتا ہے زندگی کی کوئی اہمیت نہیں؟ اگر ہے آپ کا کردار کیا رہا ہے؟
کیا تمام کام ہیلتھ ملازمین کے اوپر ڈال کر آپ تنقید کرتے رہیں گے۔؟ یا کیا کسی نے پوچھا ہے ایک ٹیسٹ کا رپورٹ آنے میں کتنا ٹائم لگتا ہے اور وقت لگنے کی وجوہات کیا ہوں گے؟ جب دو ٹیسٹ لکھے ہوں گے پھر کتنا وقت لگے گا اور دو ٹیسٹ کی ضرورت پیش آنے کے وجوہات کیا ہوسکتے ہیں؟
پشاور کے کسی ہسپتال میں جائے کوئی اندر جانے نہیں دیتا کیا چل رہا کیا نہیں بس اردلی کو سر سر ٹھیک ہے بول کر انتظار نہیں کرتے؟
ایمانداری سے بتائے کیا چترال سے تعلق رکھنے والے ہیلتھ ملازمین ڈاکٹر ،نرسز آپ لوگوں کو سہارا نہیں دیتے؟ خیال نہیں رکھتے؟ ڈیوٹی کے علاؤہ بھی آپ لوگوں کے لئے کوشش نہیں کرتے؟
تڑپتے لوگوں کو دیکھ کر ظالم کا دل بھی نرم ہوتا ہے کیا آپ اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ تڑپتا چھوڑ کر لوگ غائب تھے؟
برں سینٹر چترال میں ہونے کے باوجود فعال نہیں، کیا کوئی آواز اٹھاتا ہے نہیں جی
آخر ہم جھوٹی تسلی اور دیکھاوے کا اخلاقیات مانگنے کے بجائے بنیادی ضروریات پر توجہ دیں تو ہی مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔
اپنے ضلع کے ہسپتال کا معیار بہتر بنانے کی زمہ نمایندہ گان ، سول سوسائٹی ، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ سمیت ان تمام افراد کی ہیں جو ایک ضلع کے اندر رہتے ہیں اپنی زمہ داری کا احساس کریں اور آج سے مطالبہ کرے کہ آپ کے ہسپتال کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کا درجہ دے کر جدید آلات سہولیات سے آراستہ کیا جائے، انتہائی نگہداشت وارڈ میں تمام سہولیات موجود ہو ، آپریشن تھیٹر قابل استعمال ہو، تمام آلات ایک ڈسٹرکٹ ہسپتال کو چلانے کے لیے کافی ہو سب کا مطالبہ کریں۔ اور ایسا مطالبہ کہ ہر فرد فیس بک سمیت عملی طور پر جدوجہد کریں تاکہ دوبارہ ایسا واقعہ رونما نہ ہو، مگر مجھے پتہ ہے ہمیں مصلحت، عوامی فلاح میں کام کے لئے قدم اٹھانے سے زیادہ متنازعہ بنا کر نقصان پہنچانے کی عادت ہے اور شوق بھی رکھتے ہیں پھر کیا کوئی ایسے متنازعہ ہسپتال میں آنے کو ترجیح دے گا؟ ایسا نہ ہو کہ جو لوگ وہاں کام کررہے ہیں وہ بھی اپنا ٹرانسفر کسی اور جگہ کروا دیں ایسے رویوں سے مستقبل میں نقصان آپ کو ہی ہوگا یہ بات یاد رکھیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔