جلغوزہ کے بیچنے والے محنت کشوں کے استحصال،تدارک کے لئے نظام وضع کرنے کی ضرورت

چترال(چترال ایکسپریس) جلغوزے کے کاروبار سے منسلک مقامی افراد مافیا کے ہاتھوں یرغمال بن گئے۔ تفصیلات کے مطاق جنگلاتی علاقوں میں بعض عناصر نے جلغوزے کے کاروبار میں مافیا کا روپ دھارا ہوا ہے اور غریب لوگوں کی مجبوری کا غلط اور ناجائز فائدہ اٹھا کر انہیں سستے داموں جلغوزہ بیچنے پر مجبور کر رہے ہیں، اس حوالے سے میڈیا نے جلغوزہ بیچنے والے بعض افراد سے معلومات حاصل کرنے کے لئے گفتگو کی جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جنگلاتی علاقوں میں بعض با اثر افراد اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے جلغوزہ بیچنے والے لوگوں کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ سستے داموں میں جلغوزہ اپنے ہی علاقے میں انہی بااثر لوگوں یا انکے کارندوں کو فروخت کریں۔ اس حوالے سے جلغوزہ بیچنے والوں نے بتایا کہ جلغوزے کے کاروبار کے حوالے سے دروش ٹاؤن کو مرکزی مارکیٹ کی حیثیت حاصل ہے اور زیادہ کاروبار یہیں پر ہوتا ہے، انہوں نے بتایا کہ مثال کے طور پر دروش میں اگر ایک بوری کی قیمت 14یا پندرہ ہزار روپے ہے تو با اثر افراد مقامی لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاکر انہیں وادی میں ہی ایک بوری 10یا 11ہزار روپے تک بیچنے پر مجبور کر رہے ہیں، بصورت دیگر انہیں کاروباری مشکلات اور محکمہ کے ذریعے تنگ کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔اسی طرح انہی با اثر لوگوں نے اس کاروبار پر تسلط جمانے کے لئے مقامی بیوپاریوں کے لئے بھی خود ساختہ قیمت خرید کا تعین کرتے ہیں اور بیوپاریوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ متعین شدہ قیمت سے زیادہ پر جلغوزہ نہ خریدا جائے۔اس حوالے سے چند مقامی بیوپاریوں نے میڈیا کو بتایا کہ ہم مارکیٹ کو دیکھ کر مال خریدتے ہیں، اگر کم دام دینگے تو لوگ ہمیں مال دینے کے بجائے کسی اور کو دیں گے، اس لئے ہم حالات کے مطابق جلغوزہ خریدنے کی کوشش میں ہوتے ہیں مگر اس میں نہ ہمیں آزادی ملتی ہے اور نہ ہی بیچنے والوں کو، کاروبا ر کا مطلب ہوتا ہے بندہ اپنے فائدے کے ساتھ دوسرے دوسرے کے نقصان کا بھی خیال رکھے کہ کہیں کسی کا نقصان نہ ہو۔ اس حوالے جلغوزہ بیچنے والے مقامی محبت کش اور خریدنے والے بیوپاریوں نے بتایا کہ بااثر مافیا کے طرز عمل سے نہ صرف خریدنے والوں کا نقصان ہوتا بلکہ اس سے زیادہ نقصان بیچنے والے غریب محنت کشوں کا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کم سے کم ریٹ کا تعین کرنا ضروری ہے کہ محنت کشوں کا نقصان نہ ہو، غریب لوگوں کا فائدہ ہو مگر زیادہ سے زیادہ قیمت کے لئے مارکیٹ کو کسی حد تک کھلا رکھنا ضروری ہے کیونکہ یہاں سے جو مال بنوں کی مارکیٹ میں جاتا ہے تو وہاں ہر اور دیگر مارکیٹوں میں بولی کے حساب سے مال بکتا ہے جس سے بیوپاری فائدہ اٹھاتے ہیں، مگر چترال میں چند بااثر لوگوں نے اس کاروبار پر قبضہ جمایا ہوا ہے۔
ان لوگوں نے بتایا کہ پچھلے سال بھی ایسا ہی ہوا اور با اثر لوگوں نے غریبوں کا استحصال کرکے کروڑوں روپے کمائے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کاروبار میں یہ با اثر لوگ اب باقاعدہ مافیا بنے ہوئے ہیں۔ مقامی لوگوں نے ضلعی انتظامیہ اور محکمہ جنگلات سے مطالبہ کیا ہے کہ اس غیر قانونی سرگرمی کا تدارک کیا جائے اور جلغوزے کے کاروبار کو ریگولیٹ کیا جائے، اس ضمن میں ضلعی انتظامیہ اور محکمہ جنگلات ایک بوری کی قیمت کا تعین کریں نیز جنگلوں سے جلغوزہ اتار کر بیچنے والے غریب محنت کشوں کو یہ آزادی حاصل ہو کہ وہ جہاں بھی چاہیں اپنا جلغوزہ لیجا کر اچھی قیمت پر فروخت کریں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ خود ساختہ کمیٹی نے چند ہفتے قبل اپنی طرف سے اعلان کیا تھا کہ جلغوزہ فی بوری 8سے 10ہزار روپے سے زیادہ میں نہ خریدی جائے، تاہم کچھ بیوپاریوں نے خود سے جلغوزے کا ریٹ 14ہزار روپے کردیا جس کا فائدہ براہ راست غریب محنت کشوں کو ملتا، اسے دیکھتے ہوئے خود ساختہ کمیٹی نے ایک بار پھر نئے قیمت کا تعین کردیا اور اسے 16ہزار لگایا ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔