چترال کے چند تاریخی دستاویزات اور کتب پر ایک نظر…ارشد عرفان، گولدور چترال

بنی نوع انسا ن کاحیاتیاتی ارتقاء کا عمل سائنس دانوں کے مطابق آج سے تقریباً دو لاکھ سال پرُانی ہے۔ جب ہموسیپیں یا انسانوں نے اپنی بقا ء کی خاطرایک جگہے سے دوسری جگہ نقل مکانی شروع کی تووہ انسانی تاریخ کا پہلا واقعہ کہلا تاہے۔ یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان دنیا میں پھیلتے گئے۔ جدید علم جنیات کی رو سے بالاتفاق برصغیر کی سر زمیں پر 73 ہزار سال پہلے انسانوں کی آمد کا سراغ ملتا ہے مگر باقاعد ہ انسانی زندگی کا آغاز سات ہزار قبل مسیح میں مہر گڑھ میں ہوئی۔ جب ہم انسانوں کی معلوم تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو سات ہزار سال سے پہلے کی تاریخ ہمیں دھندلی نظر آتی ہے، جسکی وجہ اسے پہلے کی تاریخ کے حوالے سے مستند معلومات کا فقدان ہے۔ شاید آنے والے وقتوں میں تاریخ دان، ماہرین آثاریات، ماہر الانساب، ماہر جنیات اور ماہرین بشریات مل کر اس دھندلی ہو ئی تصویر سے بھی ہمیں روشناس کراسکیں۔ بہر حال تاریخ ایک ایسا مضمون ہے جس میں ماضی میں پیش آنے والے واقعات اور تہذیبوں کے بارے میں معلومات پوشیدہ ہوتی ہیں۔ اور مورخ کے فرائض کے بارے میں ابن خلدون لکھتے ہیں ، مورخ کے لیے ضروری ہے کہ وہ محض نقال نہ ہو بلکہ تاریخ سے متعلق تمام علوم کو جانتا ہو، اسے اچھی طرح معلوم ہو نا چاہیے کہ حکمرانی و سیاست کے قواعد کیا ہیں، موجودات کی طبیعت کس ڈھب کی ہے،مختلف قوموں کا مزاج کیا ہے، زمان و مکان کی بوقلمونی سے احوال و عوائدکے گوشے کیوں کر متاثر ہوتے ہیں؟ مختلف مذاہب میں فرق کیا ہے اور حدود اختلافات کیا ہیں اور کہاں سے ان کے ڈانڈے ملتے ہیں، اسطرح یہ بھی جاننا کہ حال کیا ہے اور اس میں اور ماضی میں کیا چیزیں ملتی جلتی ہیں اور کن نکات پر اختلاف ہے، تاکہ جو موجود ہیں انکی منا سبتوں اور مشابہتوں سے ماضی کے دھندلکوں کی تشریح کی جائے۔ جو لوگ ان نزاکتون کو سمجھ نہیں سکتے ہیں،وہ اس حقیقت کونہیں جانتے ہیں کہ تاریخ کا ہرواقعہ ایک منفرواقعہ نہیں ہوتا ہے، بلکہ اپنے اندر کئی پہلو رکھتا ہے اور کئی سمتوں سے اسکی حقانیت پر روشنی پڑ سکتی ہے، وہ ہولناک غلطیو ں میں اُلجھ کر رہ جاتے ہیں اور ایسے لاطائل قصے تاریخ کے باب میں پیش کرتے ہیں، جو قطعی مہمل اور مضحکہ خیز ہوتے ہیں۔(افکار ابن خلدون مولانا محمد حنیف ندو ی)

برصغیر پاک و ہند کی دوسری چھوٹی ریاستون کی نسبت چترال،تاریخ کے حوالے سے اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہے۔ یہاں کے تاریخی کتب اور دستاویزات پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں بخونی اندازہ ہوگا کہ اپنے ملحقہ ریاستوں کی نسبت چترال میں موجو د تاریخی کتب اور دستاویزات زیادہ مستند اور قابل اعتبار ہیں۔ چترال کی تاریخ کے بہت سارے مآخذ پہ کام ہو چکا ہے، لیکن ان تمام مآخذ ات میں سے تحریری مواد اور دستاویزات سب سے قابل اعتبار اور معتبر سمجھی جاتی ہیں۔ ان دستاویزات اور کتب کی تاریخی پس منظرکے حوالے سے چندوضاجتیں ضروری ہیں تاکہ آنے والے وقتوں میں تاریخ کے حوالے سے کام کرنے والے محقیقین خفقان کی اُلجھنوں میں اُلجھ کر نہ رہ جائیں۔

(۱) سید شاہ دل شاہ کا لکھا ہوا قرآنی نسخہ

سید شا ہ دل شاہ چترال کے گاؤں ریچ کے سادات خاندان کافرزند تھا اور ریشن میں رہائش پذیر تھا،اُنہوں نے اپنے زمانے میں قرآن کریم کا قلمی نسخہ تیار کیا۔ چترال کے بہت سارے لکھاری اس قرآنی نسخے کو چترال کی اولیں تحریری نسخہ مانتے ہیں، جس کے آخیرمیں شاہ دل شاہ لکھتے ہیں۔

بدست فقیر لحقیر شاہ دلخان ابن شاہ سید اکبر تمام شد این کلام،موضعیی ریشن درماہ جمادالاول روزپنجشبہ

شکر شد بتوفیق خدای الاینام این کلامت روز پنجشبہ تمام 1013ہجری

جیسا کہ اوپر تاریخ درج ہے 1013، اگراس تاریخ کو 1013 ہجری مان لیا جائے تو جورجین کلینڈر کے مطابق ستمبر 1604 ء بنتی ہے، بظاہر دیکھا جائے تو یہ قرآنی نسخہ 1013ھ میں لکھی گئی ہے لیکن جب ہم سید شا ہ وصی اور انکی اولاد کی شجرۂ نسب پہ نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ شا ہ دل شاہ بن سیداکبر بن سید رحیم ثانی بن سید مرزا شاہ بن شاہ نظر علی ابن شاہ نجی ابن شاہ وصی، اور شاہ دل شاہ کا 1013 ھ امیں زندہ ہونا ناممکن لگتا ہے۔ کیونکہ انکے جد امجد سید شاہ وصی نے شاہ بابر رئیس کی بہن سمن بیگم سے تقریبا 1040ھ میں نکاح کیا تھا۔

شاہ دل ابن سید اکبر لفٹننٹ سید عبدالحسن چرون کے آباو اجداد میں سے تھے، انکا شجرہ نسب کچھ یوں ہے سید عبدالحسن ابن سید گل خندہ شاہ ابن سید عبدالرحیم ابن شاہ دل، انٹرنشنل رول کے مطابق ایک جد کے لیے ۰۳ سال کا دورانیہ مختص کیاجائے تو، اس حساب سے شاہ دل شاہ 1850ء میں زندہ ہوتے ہیں۔اس قرآنی نسخے پہ درج تاریخ کی جانج کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ شاید لکھنے والے نے عربی اور فارسی لکھنے کے قانون اور رسم الخط کی پابندی کرتے ہوے۱۳۱۰ھ لکھنے کے بجائے 1013ھ درج کیا ہو۔ پہلے 13 لکھ کر بعد 10 لگایا ہو۔ واللہ عالم

(۲) چترال میں سادات خاندان کے شجرے اور قلمی نسخے

جب سادات عرب سے ہجرت کرکے وسط ایشیاء کے طرف بڑھے تو ان علاقوں کے لوگوں نے انھیں بڑی قدر کے نگاہ سے دیکھا اور وہ انکی قدر کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتے تھے۔عام طور پر اس خطے میں لوگوں کی نقل مکانی بہت زیادہ تھی اور سادات کی پہچان انکی شجرنسب سے کی جاتی تھی۔ سولہویں صدی عیسوی کے درمیان، ان میں سے چند سادات نے دین کے فروغ کی خاطر چترال کا رخ کیا اور یہیں سکونت اختیار کی۔ آج بھی چترال میں ان سادات کے شجروں اور دوسرے قلمی نسخوں سے چترال کی تاریخ کے حقائق سے پردا اُٹھایا جا سکتا ہے۔ جن کی ایک مثال سید شاہ وصی کا شجرہ ہے جسمیں شاہ بابر رئیس کا ذکر ہے۔

(۳) بادشاہ وقت کی طرف سے مختلف خاندانوں کو دیئے گئے اسناد

چترال میں مختلف ادوار میں مختلف نسل کے لوگ آکے آباد ہوئے ہیں اور یہ اقوام مختلف وقتوں میں عروج و زوال کا شکار رہے ہیں۔ یہاں پہ بسنے والے مختلف اقوام اور خاندانوں کو اس وقت کے حکمرانون کی طرف سے اسناد ملے ہیں۔جس میں مسند،زمین اور دوسرے حکومت کے کاموں کے حوالے سے اسناد ہیں۔ یہاں میں ملابابا آدم کی خاندان کے پاس جو اسناد موجود ہیں ان پر تبصرہ کرناضروری سمجھتا ہوں کیوں کے وہ تاریخی حوالے سے بہت اہم اسناد ہیں۔ مختلف تاریخ دانوں نے انہی اسناد کو بر وئے کار لاکر چترال کی تاریخ کا دھانچا مرتب کیا تھا۔ باباآدم کے اولاد کے مطا بق یہ اسناد ۲۱تھے اس وقت کے حکمران نے انہیں ضبط کرکے ان میں سے ۷ اسناد انکے اجداد کو واپس کئے۔ ان اسناد میں مختلف حکمرانون کے مہریں اور تاریخیں درج ہیں جن میں سے چند کا ذکر یہاں کرنا ضروری ہے۔

سندنمبر۱: محمود بن شاہ ناصر(جوچترال کارئیس حکمران تھا) نے مخصوص حکومتی کام سے استثناء کی سند دی ہے، اور اس سند میں انکی مہر واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے، اور نیچے تاریخ1153ھ رمضان روز پنج شنبہ درج ہے، یہ جورجین کیلنڈر کے مطابق 24 نومبر 1740 بنتی ہے۔

سندنمبر ۲: مہتر محمدشفیع بن سنگ علی نے ملاباباآدم کوچترال کا قاضی مقرر کرکے سند دی ہے۔ او ر مہر بھی واضح ہے۔ اس سند کے نیچے تاریخ 1169 عربی طرز پہ درج ہے اور مہینہ اور دن درج نہیں اورجو رجین کیلنڈر کے مطابق 1755/56؁ء بنتی ہے۔

سندنمبر۳:مہتر محمد شفیع بن سنگ علی نے ملابابا آدم کو زکواۃ اور عشر ملابابا آدم کو دینے کا حکم نامہ ہے۔اور اس سند میں مہر اور تاریخ واضح ہیں اور1169؁ھ عربی طرز میں درج ہے جو رجین کیلنڈر کے مطابق /56 1755 بنتی ہے۔

سند نمبر۴:مہتر محمد شفیع بن سنگ علی نے اوپر کے دو سند وں کے دوسال بعد یعنی 1171 میں ملا بابا آدم کوعلاقہ اویر کا بھی قاضی بنا کر سند دی ہے۔جو رجین کیلنڈر کے مطابق 1757/58؁ء بنتی ہے۔

سندنمبر۵: اس سند کے متعلق مختلف رائے قائم کی جاسکتی ہیں۔ اس سند میں شاہ افضل بن محترم شاہ کے دو مہریں لگی ہیں اور ایک مہر مہترشاہ نواز کی ہے اور سند کے نیچے تاریخ1171 درج ہے۔جو رجین کیلنڈر کے مطابق 1757/58؁ء بنتی ہے۔ سند نمبر ۴ اور سند نمبر ۵ میں ایک ہی سال دو مختلف حکمرانوں نے دوالگ جگہوں کی متعلق سند دی ہے۔ پہلا امکان یہ ہے ہوسکتا ہے کہ اس پہ درج اولیں مہر شاہ افضل بن محترم شا ہ اول کی ہے جو دروش کے علاقے کا حکمران ہو، بعد میں انکے بیٹے بھی کافی عرصہ دروش کی حکمرانی پہ قابض رہے تھے۔ دوسرا مہر مہترشاہ نواز کی ہے جو توثیقی مہر ہے اور اس مہر پہ تاریخ درج ہے جو واضح نہیں ہے۔ اور تیسری مہر شاہ افضل بن محترم شاہ دوم کی ہے اور یہ مہر بھی توثیقی مہر ہے اور جس پہ تاریخ 1256 درج ہے۔ جو رجین کیلنڈر کے مطابق 1840 بنتی ہے۔

سندنمبر ۶: عبدالقادر بن شاہ محمود (جو رئیس حکمران تھے)نے 1176 میں ملاباباآدم کو علاقہ اویر، لون، کوشٹ، موردیر اور موژگول کے قاضی القضاء کے عہدے پہ فائزکرکے سند دی ہے۔جو رجین کیلنڈر کے مطابق 1762 بنتی ہے۔

(۴) شاہ نامہ سیر

مرزا محمد سیر چترال کے پہلے تاریخ دان گردانے جاتے ہیں انہوں نے ابو قاسم فردوسی کی مشہو ر زمانہ کتاب شاہ نامہ فردوسی کی طرز پہ شاہ نامہ سیر لکھا جو چترال کی تاریخ پہ لکھی گئی پہلی کتاب کہلاتی ہے۔ جس کا زیادہ حصہ ان کے ہم عصر حکمران محترم شاہ دوم کی جنگوں کے گردگھومتاہے اور محترم شاہ دوم کے بیٹے فرخ سیر کے اپنے باپ کے ساتھ بغاوت پہ آکے ختم ہوتا ہے۔شاہ نامہ سیر سے ا س وقت کے حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور مرزا سیر نے اس شاہ نامے میں اس وقت کا مختلف مشاہیر کا بھی ذکر کیا ہے۔ شاہ نامہ سیر کو بنیاد بناکر بعد میں آنے والے تاریخ دانوں نے اس پر تحقیق کرکے مختلف کتب لکھے ہیں۔ شاہ نامہ سیر کا اصل مسودہ ناپید ہے، لیکن مختلف ادوار میں لکھاریوں نے انکا نقل کیاہے جو آج بھی موجود ہیں، جنہیں آج کل اکثر لکھاری مرزا سیر کے شاہ نامے کی اصل قلمی نسخہ سمجھتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ مرزا سیر کے شاہ نامہ کے بارے میں چترال کے ایک دوسرے تاریخ دان اور فارسی کے عالم مرزا غفران لکھتے ہیں۔ جو داری فارسی شاہ نامہ سیر کے نقل کنندہ مسودوں میں ملتی ہے وہ مرزا سیر کے علم کے معیارکے مطابق نہیں ہے جو اس نے اپنادیوان مرتب کیا ہے اسکا معیار کافی بلند ہے۔ مرزا غفران کے مطابق، مرزا سیر کے شاہ نامہ سیر کو نقل کرنے والوں نے Substandardداری فارسی کے اضافیات کے ساتھ نقل کئے ہیں جو کہ مرزا سیر کی علمی استعداد کے مطابق نہیں، مرزا سیر فارسی زبان کے بہت بڑے عالم اور شاعر تھے، اتنے بڑے عالم کا شاہ نامہ سیر میں داری فارسی کا استعما ل نا قابل فہم ہے کیونکہ مرزا غفران انکے فارسی شاعری اور علم کے حوالے سے لکھتے ہیں، مرزا سیر بلبل ہیں شاخسار سخنوری کے اور گلزار فصاحت گستری کے اور انکے کلام سہ نثر ظہوری کا مرتبہ رکھتے ہیں۔

(۵) انگریز لکھاری

جب انگریزو ں نے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو معزول کرکے پورے ہندوستان پہ اپنا قبضہ جمالیا تو اپنے سرحدات کو مستحکم کرنے پر غورکرنا شروع کیا۔ ان سرحدات کے بارے میں معلومات کے فقدان کی وجہ سے اپنے سٹریٹجک پالیسوں کو انجام تک پہنچانا مشکل نظر آیا تو ان علاقوں میں اپنے وفد بھیجے جو اکثر سیاح کا روپ ڈھال کر وارد ہوئے۔ ان میں سے ایک شخص ولیم لیٹنر تھا جنہوں نے ان علاقوں کا تین بار دورہ کیا وہ ایک برطانوی ماہر شرقیات تھے اور انکو پچاس زبانوں پہ عبور حاصل تھا، وہ اپنا نام عبدالرشید سیاح بتاتے تھے۔ انھوں نے اپنے کتا ب دردستان، 1866,1886,1893,میں موجود ہ چترال کے مشرقی علاقوں کا مختصر ذکر کیا ہے، اس وقت چترال پہ آمان الملک کی حکومت کا بھی ذکر ہے اور اس کتاب میں چترال کے چند مشاہیر کی تصویریں بھی دی گئی ہیں جو اس وقت غذر کے علاقے میں موجود تھے۔

(ا) جان بڈلف کی کتاب The Tribes of Hindukush

1876ء میں جب مہتر چترال نے مہاراجہ کشمیر کے ساتھ دوستانہ معاہد ہ کیا اور دونوں ریاستوں کے بیچ تعلقات استوار ہوے تو مہاراجہ کشمیرنے آمان الملک کو ایک خط میں ایک انگریز سیاح بڈلف کے چترال آنے کا ذکر کیا۔ اور اسی سال 1876ء میں جان بڈلف چترال آئے اُنہوں نے چترال اور گلگت پر بہت ہی عمدہ کتاب لکھی جسکا نام

The Tribes of Hindukush تھا۔ اس کتا ب میں اس علاقے کے اقوام کے علا وہ ر وایات،تہذیب وتاریخ کے حوالے سے بہت سے معلومات ملتی ہیں۔ بعد میں آنے والے انگریر لکھاریوں نے اکثر اسی کتاب کو بنیاد بناکر اپنے انٹیلیجنس رپورٹس اور گیزیٹیر مرتب کئے۔ یہ کتاب زیادہ تر اس وقت کے زبانی روایات اوردوسرے تاریخی ذرائع پر مصنف کی اپنی اد راک پر مشتمل ہے۔

(ب) لاکہارٹ مشن اور اسکے ریپورٹس

1880ء میں جب روسی مداخلت اپنے عروج پر تھی تو سکرٹری سٹیٹ آف انڈیا نے 1885 ء کو سر ولیم الیکزنڈرل لاکہارٹ کو مشن پہ ہندوکش کی پہاڑیوں کی طرف بھیجا۔ اس مشن میں لاکہارٹ کے علاہ آرمی انٹلجنس کے افسران، ڈاکٹراور سروے افسران بھی شامل تھے۔ اس مشن کے چترال آنیکا مقصد بظاہر تو چترال کے مہتر آمان الملک کے ساتھ تعلقات استوار کرنا تھا،اس لئے اس مشن میں سینکڑوں جانوروں پہ لادے ہوے بندوق اور دوسرے تحفے بھی کشمیر سے ہوتے ہوے چترال پہنچے تھے۔ اس مشن کے انٹلجنس کی کمانڈکیپٹن ایمنڈ بیرو کر رہے تھے۔ اور بعد میں اس مشن کا نام لاکہارٹ بونڈری کمیشن ٹو چترال، کافرستان، ہنزا اینڈ وخان رکھا گیا۔ اس مشن نے چترال اور دوسرے مضافاتی علاقوں کا دورہ کیا اور ان علاقو ں کے حوالے سے جغرافیائی، طبقاتی، طبی، تاریخی اور دوسرے انتلیجنس پہلوں پر مر تب دو رپورٹ تیار کرکے برطانوی حکومت کے پاس جمع کرائی۔ جن کا عنوان The Gilgit Mission 1885-86. اور The Gazzeter on eastern hidukush تھے، جو بعد میں برطانوی حکومت کے ہندوکش کے حوالے سے سٹریٹجک پالیسیوں میں بہت کا رآمد ثابت ہوئے۔ ان دونوں رپورٹس میں چترال کے جغرافیائی سماجی اور تاریخی حوالوں سے بہت اہم معلومات ملتی ہیں لیکن بعض جگہوں پہ رپورٹ مرتب کرنے والوں نے چترال کے معاشرے کی منفی پہلوں کو بڑھا چڑھا کے بھی پیش کیا ہے۔

(ج) مہتر امان الملک کے وفات کے بعدچترال پر لکھی گئی انگریزی کتب،

1892 ء میں جب مہترچترال مہترامان الملک کی رحلت ہو ئی تو انکے بیٹے مہترافضل الملک چترال کے تخت پر براجمان ہوئے، مہتر امان الملک بہت قدآرور حکمران گزرے ہیں۔مہترچترال امان الملک کی وفات کے بعد بیرونی قوتوں کی نظر چترال کے تخت پہ پڑی اور انکو یہ اندازہ تھا کہ ناتجربہ کار شہزادے چترال کی حکومت زیادہ دیر سنبھال نہیں پائیں گے۔ موقع کا فائدہ اٹھاکر امیر افغانستان نے مہتر آمان الملک کے بھائی شیر افضل خان جو کافی عرصے سے بدخشان میں جلاوطن تھے مدد دیکر چترال کی طرف بھیجا تو انھوں نے افضل الملک کو قتل کرکے چترال کی حکومت پر قبضہ کر لیا۔دوسری طرف امیر افعانستان کی چترال کی حکومت پہ مداخلت سے حکومت برطانیہ کے کئی سالوں کی محنت او رمفادات کو سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو جو گریٹ گیم کا حصہ تھا، تو مہترنظام الملک جو گلگت میں معزول تھے انکو فوجی مدد دیکر چترال کی طرف بھیجا جس کی خبر جب شیر افضل خان کو ہوئی تو وہ چترال کی حکومت چھوڑ کر واپس بدخشان بھاگ گئے اسی طرح چترال کی حکومت پہ مہتر نظام الملک کی حکومت رہی۔ ان کی حکومت کے تقریباً ۳ سال بعد ۱ جنوری 1895 ء کو انکے بھائی شہزادہ امیرالملک نے مہتر نظام الملک کو قتل کرکے چترال کی حکمرانی پہ قبضہ کر لیا اور برطانوی حکومت سے ساز باز شروع کردی کہ وہ انکو چترال کا حکمران تسلیم کرلے۔ اس معاملے کو سلجھانے کے لیے برطانوی حکومت کی طرف سے چیف پولٹیکل افیسر کے طور پرسر جورج سکوٹ روبرٹسن ۱۳ جنوری 1895 ء کو چترال پہنچے۔ اسی دوران موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوے عمرا خان اورشیر افضل خان نے چترال پر حملہ کردیاجس کی بناء پہ برطانیہ ہند کا ایک بہت اہم تاریخی واقعہ محاصرہ چترال رونما ہوا۔ ۳ مارچ 1895 ء کو جارج اسکوٹ روبرٹسن تقریباً 500 دیگر لوگوں کے سا تھ قلعہ چترال میں محصور ہوئے۔ برطانوی حکومت کی طرف سے مدد کے لئے دو مختلف فوجی دستے چترال کی طرف بھیجے گئے جو دو مختلف راستوں سے پٹھان اور چترالی افوج سے لڑتے ہو ئے چترال پہنچے، گلگت سے جو مہم جوئی ہوئی انکی کمانڈ کرنل جیمس کیلی نے کی اور جنوب سے آنے والے افواج کی کمانڈ سر روبرٹ کینلف لا کررہے تھے۔ اس مہم میں شریک بہت سارے افیسرز نے اپنی انکھوں دیکھے واقعات ڈائری میں درج کیے ہیں اور بعض نے کتاب کی شکل میں شائع کئے ہیں۔یہ کتب اس وقت کے جنگوں اور لوگوں کے حالات کے بارے میں بہت سارے معلومات رکھتے ہیں۔ان کتب کے مطالعے سے پتا چلتاہے کہ ان افیسرز نے بہت کم عرصے چترال میں رہ کر چترالی معاشرے کی جو عکاسی کی ہے وہ حقیقت کے برعکس ہے۔ کسی بھی معاشرے کے لوگوں اور انکے رو ایات کو جاننے اور رائے قائم کرنے سے پہلے اس معاشرے کے بنیادی تصورات اور اسلوب کو جاننا، یا اس معاشرے کا حصہ بنکر جانج کرنا ضروری ہے۔ ایک فوجی مہم جوئی پہ ایک جگے سے گزرکر اس معاشرے کے بارے میں لکھنا ایک کٹھن کام ہے۔لیکں پھر بھی ان برطانوی آفسرز نے بڑی خوش اسلوبی سے یہ کام سرآنجام دیا ہے۔

مرزا غفران کی تاریخی یادداشتیں و تاریخ چترال فارسی (اولیں نسخہ 1893ء) (دوم 1902ء)

مرزا کے معنی فارسی میں صاحب علم کے ہیں، کئی مرتبہ استاد کے لیے بھی مرزا کا لقب استعمال ہو ا ہے۔ مغل اور تیموری شہزادوں کا لقب بھی مرزا ہو ا کرتا تھا۔ ریاست چترال میں صاحب علم شخصیات کو رئیسوں کے دور سے ہی ملا اور مرزا کا لقب دیا گیا ہے، جن میں سے ملا بابا آدم، مرزا اطہر،ملا زمانی،مرزا شکور غریب، مرزا سیر، مرزا شیاق، مرزا محمد غفران قابل ذکر ہیں۔ مرزا غفران کاری کے ایک متوسط گھرانے میں 1856ء میں پیدا ہوئے ،پشاور کے مختلف مکتب سے علم حاصل کیا، جب انکے علمی قابلیت کی خبر مہتر امان الملک کو ملی تو انھوں نے تقریباً 1879 ء میں انہیں چترال بلوایا، امان الملک کے دربار میں انکی علم کی وجہ سے انکی بڑی قدر تھی۔ 1880ء کے بعد چترال کے مختلف واقعات انکے یاداشتوں میں درج ہیں جن میں مختلف شہزادوں کی پیدائش، سیاسی سماجی واقعات کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔تاریخ کے حوالے سے مرزا عفران نے امان الملک کے دورہی میں کام شروع کیا تھا۔ ان کے تاریخی داستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سے تاریخی معلومات انہوں نے مہتر امان الملک سے حاصل کی تھیں۔ مہتر آمان الملک کے وفات کے بعد جب انکا بیٹا مہتر افضل الملک 1892ء کو تخت نشین ہوے تو انہوں نے مرزا غفران کو چترال کی تاریخ کے حوالے سے کتاب لکھنے کو کہا۔ جس کی تکمیل 1893ء میں انکے بھائی مہتر سردار نظام الملک کے دور میں ہوئی۔ مرزا غفران اس کتا ب کے حوالے سے لکھتے ہیں۔ ”میں نے جب چترال کی تاریخ کے حوالے سے کام شروع کیا تو میرے پاس مرزا سیر کے شاہ نامہ کے ٹوٹے پھوٹے ٹکڑوں کے سوا کچھ نہیں تھا، ان کو جوڑ کر میں نے تاریخ کے حوالے سے معلومات حاصل کیں، چترال کے لوگ شاعری کو پسند کرتے ہیں اور میں نے نثر میں تاریخ لکھنے کی کوشش کی ہے کیونکہ شاعری کی خوبصورتی ہی مبالغہ میں ہو تی ہے“۔ یہ مختصر تاریخ چترال اس وقت چترال کی تاریخ کے حوالے سے ایک منفرد تحفہ تھا لیکن بعض جگہوں میں نسبت کے حوالے سے کمی بیشیان موجود ہیں پھر بھی اس کتاب میں تاریخ کے اکثرپہلووں پہ کام کیاگیا ہے۔ جسے بعد میں چترال میں ایک بریٹش ایجنٹ کے منشی،عزیزالدین سے کچھ اضافیات کے ساتھ اردو میں ترجمہ کرکے تاریخ چترال منشی عزیزالدین کے نام سے شائع کروایاگیا۔

ء 1895کے بعد چترا ل کے سیاسی اور سماجی حالات بدل گئے تھے مہتر شجاع الملک کے کہنے پہ مرزا غفران نے 102 صفحوں پر مشتمل ایک او ر کتاب مرتب کی جس میں محاصرہ چترال ا نگریزون کی آمد، مہتر شجاع الملک کی تخت نشینی اور اسکے بعد کے حالات کے بارے میں معلومات ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔