سوشل میڈیا کا پاور فل اور پیس فل استعمال۔۔۔۔اشتیاق چترالی:

گلوبلائزیشن کے Term سے واقف لوگ اِس چیز سے بخوبی واقف ہیں کہ آج کل کے دور جدید میں لاکھوں میل دور بیٹھے ہوئے افراد کا ایک دوسرے سے رابطہ،دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کی جانکاری،آسمان سے زمیں کی تہہ تک پہنچنے اور اِس طرح کے نت نئے رونما ہونے والے واقعات انگلیوں کے نیچے ایک کلک کی دوری پر ہوتے ہیں،جہاں انسان ایک کلک کرے وہیں ان واقعات اور حالات کے بارے میں آگاہی اور جانکاری شروع ہو جاتی ہے۔
ہمارے پاس موجود سمارٹ فون کے استعمال سے ہم لاکھوں میل دور بیٹھے ہوئے لوگوں سے اتنے قریب آجاتے ہیں جیسے کہ وہ۔ہمارے سامنے ہی موجود ہیں۔دور جدید میں اس کے استعمال ،ان درپیش چیلنجز سے بنردآزما ہونے اور نئے نئے ایجادات سے استفادہ حاصل کئے بغیر آگے بڑھنا اور ترقی کے منازل طے کرنا دیوانے کے خواب سے کم نہیں۔اس کا مثبت استعمال ہی ہم کو ترقی یافتہ ممالک کے صفوں میں لا کھڑا کر سکتی ہے۔
سوشل میڈیا کا پاور فل اور پیس فل استعمال کے حوالے سے درد دل رکھنے والی چترال کی ایک ہونہار بیٹی جو ابھی خود تعلیم حاصل کرنے کے مرحلے سے گزر رہی ہے نے یہ تہیہ کر لی کہ خاندانوں کے خاندان اجاڑنے والی اس سوشل میڈیا کا ہم مثبت انداز میں استعمال شروع کر دیں تو بگاڑ کے بجائے تعمیر کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔جہاں ہم لمحہ بہ لمحہ تازہ ترین بحث و تکرار،ملکی و غیر ملکی میڈیا کے ذریعے واقعات سے با خبر رہتے ہیں اور نئے ایجادات کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں وہیں پہ ہم اس کے مثبت استعمال سے خاطر خواہ کمائی بھی کر سکتے اور گھر بیٹھے آن لائن سسٹم کے ذریعے کما کے اپنی لائف اسٹینڈرڈ میں بہتری لانے کا سامان بھی کر سکتے ہیں اور اس حوالے سے کافی مہینے پہلے میں نے اپنے کالم”سوشل میڈیا کا مثبت استعمال “میں تفصیل سے روشنی ڈالی تھی اور چترال کی ایک اور بیٹی جس نے پشاور میں اپنے کاروبار شروع کی تھی کے حوالے سے بھی مضمون لکھا تھا تاکہ مزید ایسے افراد کو تقویت ملے۔
مریم سوہانی چترال سے تعلق رکھتی ہیں، انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے انگریزی زبان و آدب میں بی ایس کر چکی ہیں،مختلف سیشنز،سیمینارز میں شرکت اور نمائندگی کر چکی ہیں اور ساتھ ساتھ ایک سرٹیفائیڈ آمن کے سفیر کا درجہ رکھتی ہیں نے اپنے ہم خیال کولیگز کو ساتھ لیکر ایک آگاہی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور پہلا ورکشاپ ٹاون ہال چترال میں منعقد ہوا۔یہ آمر خوش آئند ہے کہ چترال کی بہن بیٹیاں بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنے نوجوان نسل کو ترقی کی راہ پہ گامزن کرنے کے حوالے سے فکر مند ہیں اور موجودہ دور میں سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو ترک کرکے مثبت استعمال کی طرف لوگوں کو راغب کر رہی ہیں۔عجیب کیفیت تھی جہاں پہلے چترال میں خواتین اپنے کسی حق کے لئے آواز اٹھانے سے کتراتی تھیں وہیں پہ ہماری یہ بہنیں معاشرے کے دوسرے لوگوں کو منفی سرگرمیوں سے باز رکھنے کا سوچ رہی ہیں اور وہی خواتین آگے آکے قیادت کر رہی ہوتی ہیں۔اس پروگرام میں چترال بھر سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد جن میں پروفیسرز،وکلاء،ڈاکٹرز،علماء،صصحافی،شعراء،طالب علموں کے علاوہ سوشل ایکٹوسٹس غرض سارے ہی افراد موجود تھے جن میں قابل ذکر چترال میں تعلیمی میدان میں ایدھی کہلانے والے چیئرمین روز فاونڈیشن ہدایت اللّٰہ،چترال کی قابل فخر بیٹی اور چترال کی پہلی شاعرہ فریدہ سلطانہ،قائم مقام تحصیل چیئرمین تحصیل چترال سجاد احمد،مشہور سوشل ایکٹوسٹ خلیل احمد جنھوں نے اسٹیج کے فرائض بھی انجام دئے،مفتی ضمیر،وقاص ایڈوکیٹ،ڈائریکٹر اسامہ وڑائچ اکیڈمی فدا الرحمان،سیف الرحمان عزیز،شہریار بیگ،اور اسسٹنٹ پروفیسر ظہور الحق کے علاوہ دیگر قابل فخر شخصیات موجود تھے۔چترال بھر میں ایسے کسی بھی مثبت سرگرمیوں کے انعقاد کو ممکن بنا کر نوجوان نسل کو آگے آکے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لئے پلیٹ فارم مہیا کرنے والے ڈائریکٹر اسامہ وڑائچ کیریئر اکیڈمی فدا الرحمان کی خدمات کا اعتراف نہ کی جائے تو یقیناّ نا انصافی ہو گی اور ہم ان سے مزید آگے آکے قدم اٹھانے کی امید بھی رکھتے ہیں تاکہ نوجوان نسل کو مزید مہمیز ملے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے ایونٹس جو معاشرے میں مثبت سرگرمیوں کو فروغ دیں ان کی سرپرستی کرنی چاہئے اور ہر فرد کو اس میں اپنے حصے کا کرداد ادا کرنا چاہئے،تاکہ معاشرے میں مثبت سرگرمیوں کو پنپنے کا موقع مل سکے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔