داد بیداد…شما ریات کا سافٹ وئیر…ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

ایک خبر نظر سے گذری خبر میں بتا یا گیا ہے کہ ہزارہ کی ایک بڑی برادری گو جری زبان کو مر دم شما ری میں ما د ری زبا نوں کی فہرست میں لا نے کے لئے سر توڑ کو شش کر رہی ہے محکمہ شماریات کا مو قف یہ ہے کہ ہمارے پا س 15سے زیا دہ زبا نوں کو لکھنے کی گنجا ئش نہیں 15کے بعد جتنی زبا نیں ہیں ان کو وغیرہ، وغیرہ لکھا جا تا ہے یہ سافٹ وئیر کا مسئلہ ہے یعنی کمپیو ٹر میں جو فارم بنا یا گیا ہے اس میں 15سے زیا دہ زبا نیں نہیں آسکتیں، گوجر ی برادری کا مو قف یہ ہے کہ 2016تک اس سافٹ وئیر میں 5زبا نوں کے نا م تھے چھٹے نمبر پر وغیرہ آتا تھا اگر 5سے بڑ ھا کر 15کیا جا سکتا ہے تو 15سے بڑ ھا کر 57کیو ں نہیں کیا جا سکتا؟ گلگت بلتستان میں بروشسکی دنیا کی منفر د زبان ہے جو زبا نوں کے عالمی خا ندان سے الگ اپنی پہچان اور شنا خت رکھتی ہے انگلینڈ اور جر منی کی دو یو نیو رسٹیوں کے علا وہ کر اچی یو نیور سٹی میں بھی بروشسکی کے لئے چیر رکھا گیا ہے مر د م شما ری رپورٹ میں اس کو وغیرہ کے نا م سے لکھا جا ئے گا تو کتنی مضحکہ خیز بات ہو گی، جنو بی وزیر ستان میں پیرروشان علیہ الرحمتہ کی برادری بر کی قبیلے کے دانشور سراپا احتجا ج ہیں کہ ارمڑ ی زبان ہند ایرانی زبا نوں کی اہم شاخ سے تعلق رکھتی ہے کا نی گروم، لدھا کے علا وہ پشاور میں بھی اس کے بولنے والے بستے ہیں ارمڑی کو کیوں نظر انداز کیا گیا؟ سوات سے زبیر تور والی، محمد زمان ساگر، انعام اللہ اور ان کے ساتھی سراپا احتجا ج ہیں کہ گاوری اور تور والی خیبر پختونخوا کی اہم مادری زبا نوں میں شما ر ہوتی ہیں، دونوں زبا نوں کو نظر انداز کرنے کی کوئی وجہ قابل قبول نہیں ہو سکتی فہرست میں کو ہستانی زبان کا نا م بہت مبہم ہے کوہستا نی اور انڈس کو ہستا نی دو الگ الگ زبا نیں ہیں نا مور دانشور راز ول کو ہستا نی اور طالب جان اس بات پر احتجا ج کر رہے ہیں کہ دونوں زبا نوں کے الگ الگ نا م آنے چاہئیں چترال کی کلا ش زبان نے عدالتی حکم کے ذریعے لسٹ میں جگہ حا صل کی ہے البتہ چترال کی گیارہ زبا نوں کو وغیرہ کے خا نے میں دھکیل دیا گیا ہے شاہد علی خان یفتا لی ایڈو کیٹ اور پرو فیسر ممتاز حسین اس بات کا اعا دہ کر تے دکھا ئی دیتے ہیں کہ 2016میں پشاور ہائی کورٹ نے صوبائی سینسس کمشنر کو عدالت میں طلب کر کے فیصلہ دیا ہے کہ کھوار کو مردم شماری کے سافٹ وئیر میں بطور مادری زبان شامل کیا جا ئے ریکارڈ پر یہ حکم مو جو د ہے سینسس کمشنر کا اقرار بھی ریکارڈ پر دستیاب ہے اس کے باو جود کھوار کو پھر نظر انداز کیا گیا حا لانکہ خیبر پختونخوا کے دو اضلا ع اور گلگت بلتستان کے ایک ضلع میں 15لا کھ سے زیا دہ آبادی کی ما دری زبا ن ہے انفارمیشن ٹیکنا لو جی کے ما ہرین کہتے ہیں کہ ہر کمپنی یا سر کا ری ادارہ اپنی ضرورت کے مطا بق سافٹ وئیر تیار کر تا ہے اور استعمال کر تا ہے ناد را کے پاس جو سافٹ وئیر ہے اس میں ملک کی تمام مادری زبا نوں کی گنجا ئش ہے وغیرہ،وغیرہ کا کوئی خا نہ نہیں رکھا گیا اگر سینسس ڈویژن اپنے سافٹ وئیر کو اپڈیٹ کرنا چا ہے تو کوئی مشکل پیش نہیں آئیگی اس بحث میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 75سالوں میں مر دم شما ری والوں کو اس بات کا علم نہیں ہوا کہ ریسرچ اور تحقیق کرنے والے عالمی ماہرین مر دم شما ری رپورٹ میں سب سے پہلے آبا دی کی ڈیمو گرافی یا زبا نوں کی تقسیم کو دیکھتے ہیں عالمی ما ہرین اس بنا ء پر پا کستان کی مر دم شما ری رپورٹ کو مسترد کر کے کوڑے دان میں پھینکتے ہیں کہ اس رپورٹ میں ما دری زبانوں کا کوئی ذکر نہیں۔ اب شما ریات ڈویژن کو اپنا سافٹ ویر اپڈیٹ کرنا چا ہئیے اگر ان کی ضد جا ری رہتی ہے تو حکومت کا فرض ہے کہ مر دم شما ری کا کام شما ریات ڈویژن سے لیکر پو لیس، بلدیات یا محکمہ تعلیم کو دے دے، اس مسلے کا یہی حل ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔