حقوق کیلئے سیاسی اتفاق رائے۔۔۔محمد شریف شکیب

وفاقی طرز حکومت کی کامیابی کے لئے مرکز اور وفاقی اکائیوں کے درمیان ہم آہنگی، اتفاق اور ناگزیر ہوتا ہے۔مملکت خدداد پاکستان میں بھی فیڈریشن یعنی وفاقی طرز حکمرانی رائج ہے جس میں وفاق کی حیثیت باپ یا بڑے بھائی جیسی ہوتی ہے جو کو اخلاقی طور پر خود بھوکا رہنے اور چھوٹوں کو پیٹ بھر کر کھلانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مگر ہمارے ہاں وفاق کا کردار ہمیشہ غاصب اور حق تلفی کرنے والے بڑے بھائی جیسا رہا ہے۔چھوٹے صوبوں میں اپنی پارٹی یا اتحادیوں کی حکومت بھی ہو تب بھی وفاق کا کردار جانبدارانہ رہا ہے۔1998 میں وفاق ، پنجاب اور اس وقت کے صوبہ سرحد میں مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کی حکومتیں تھیں پنجاب نے صوبہ سرحد کو آٹے کی ترسیل پر پابندی لگا دی۔جس کی وجہ سے صوبے میں قحط جیسی صورت حال پیدا ہو گئی۔ تین روپے والی روٹی اٹھارہ روپے کی ہو گئی آٹا ناپید ہونے کی وجہ سے لوگ چوکر کی روٹیاں بنا کر کھانے پر مجبور ہو گئے۔پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل اور تحریک انصاف کے ادوار حکومت میں بھی صوبوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا رہا۔جب مرکز اور صوبوں میں مخالف پارٹیوں کی حکومتیں ہوں تو صوبائی حقوق کا مسئلہ مزید سنگین ہو جاتا ہے۔اس بار خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی اور مرکز میں پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کی حکومت ہے۔اور وہی کہانی دھرائی جا رہی ہے صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ مرکز نے این ایف سی میں صوبے کے حصے کا فنڈ ابھی تک نہیں دیا۔ بجلی کے خالص منافع کی سالانہ رقم اور بقایاجات بھی نہیں ملے اور صوبے میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کے لئے اپنے حصے کا فنڈ بھی مرکز نے ابھی تک نہیں دیا۔ صوبوں کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز بھی کٹوتی کردی جس کی وجہ سے صوبے کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی میں بھی مشکل ہیش آرہی ہے۔اس صورت حال پر صوبے میں حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ اجلاس میں صوبائی حقوق کے لئے اسمبلی میں مشترکہ قرارداد لانے اور مرکز کے پاس جرگہ بھیجنے پر اتفاق ہوا ہے۔خیبر پختونخوا ایک پسماندہ صوبہ ہے یہاں کی 80 فیصد آبادی دور افتادہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے۔کورونا کی وباء اور حالیہ سیلاب نے صوبے کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔محض سیاسی مخاصمت کی بناء پر صوبے کی پانچ کروڑ آبادی کو اس کے جائز حقوق سے محروم رکھناسراسر زیادتی ہے۔صوبے کے حقوق کے لئے اپوزیشن رہنماوں کا سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر حکومت کا ساتھ دینا اور مل کر جدوجہد کرنے کا عزم قابل تحسین ہے۔جب پورے صوبے کے عوام، تمام سیاسی جماعتیں، سماجی تنظیمیں، میڈیا اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے اجتماعی حقوق کے لئے متحد ہوجائیں تو کوئی طاقت ان کے ساتھ حق تلفی نہیں کر سکتی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔