اُمت کی تعلیم کے بارے میں آغا خان سوم کی بصیرت…تحریر:خدیجہ لدھانی

آج، مؤرخہ2نومبر،2022ء کو سلطان محمد شاہ، آغا خان سوم (1877-1957)کا یوم پیدائش منایا جا رہا ہے۔اگرچہ سنہ 1885ء تک وہ شیعہ اسماعیلی مسلمانوں کے اوّلین اور اہم ترین مورثی امام سمجھے جاتے تھے لیکن اپنی امامت کے عرصے میں وہ بتدریج، بھارت اور اُس سے باہر کے تمام مسلمانوں کے لیے اپنی سماجی، ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور تعلیمی ترقی میں نمایاں حصہ لینے کی وجہ سے پہچانے جانے لگے۔

سر سلطان محمد شاہ برصغیر میں مسلمانوں کی تعلیم کے سرگرم حمایتی تھے اور اْنھوں نے، سر سید احمد خان کے ساتھ مل کر علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام اور اپنے کام کے ذریعے تعلیمی ا صلاحات میں کردار ادا کیا۔تعلیم کے حوالے سے آغا خان سوم کے بارے میں وِلی فریشیور (Willi Frischauer) اپنی کتاب دی آغا خان میں لکھتا ہے:”اْن کے لیے اس بات کا موقع موجود تھا کہ وہ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے، جنھوں نے الازہر کی بنیاد رکھی تھی، اوروہ پہلی اسلامی یونیورسٹی بھی تھی جس نے نوجوان آغا خان کو بہت متاثر کیا۔ اُنھوں نے اِس مقصد کے لیے رقم جمع کرنے اور اپنے دولتمند دوستوں کو حصہ لینے پر آمادہ کرنے کا ارادہ کیا۔۔۔اور اِس کے لیے اْنھوں نے اپیل کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔اس عرصے میں اْن کا یہ کام تھا جس کے ذریعے وہ پاکستان کے ’بانیوں‘ میں بھی شمار ہوتے ہیں۔

سر سلطان محمد شاہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں تربیت کے چیمپئن سمجھے جاتے تھے جنھوں نے مسلمانوں کی نہ صرف تعلیم کے لیے بلکہ اعلی معیار کی تعلیم کے حصول کی وکالت کی۔اْنھوں نے ضروری محسوس کیا کہ برصغیر کے مسلمان جدید تعلیم کے حصول کے لیے دل و جان سے عہد کریں؛ کیوں کہ یہ تعلیم ہی تھی جس نے اُمت کو سنہری دور کی شان حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا تھا اور تعلیم ہی یہ بات یقینی بنائے گی کہ مسلم کمیونٹی برصغیر کے سیاسی و سماجی میدانوں میں اپنا حصہ ڈال سکے۔

غیر معمولی 70برسوں تک کمیونٹی کے لیے کام کرتے ہوئے، سر سلطان محمد شاہ نے پاکستان میں آغا خان اسکولوں کے موجودہ تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی اور بیسوی صدی کے دوران 200سے زائد اسکول قائم کیے گئے۔قائم کیے گئے اِن ابتدائی اسکولوں میں سے ایک اسکول سنہ 1905ء میں، گوادر، بلوچستان میں قائم کیا گیا۔آغا خان سوم نے ڈائمنڈ جوبلی اسکولوں یا ڈی جے اسکولوں کے قیام کا بھی آغاز کیا جن میں سے اکثر پاکستان کے شمالی علاقوں میں نوجوان لڑکیوں کی تعلیم یقینی بنانے کے لیے قائم کیے گئے تھے۔

آج، آغا خان چہارم کے راہنمائی میں آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک (AKDN) اس علاقے سمیت پورے ملک میں تعلیم کی سطح بلند کرنے کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ خوشحالی کے سنہرے دور تک پہنچنے کے لیے آغا خان سوم کے نظریات، آج اِن اداروں کی جانب سے پاکستان کے غریب ترین اور دور دراز علاقوں کی ترقی کے لیے انجام دئیے گئے کام کے معیار سے ظاہر ہوتے ہیں۔ پاکستان سے باہر بھی، AKDN کی ایجنسیوں اور اداروں کا وسیع نیٹ ورک غربت کے خاتمے اور، دنیا بھر کے مسلمانوں اور ان کی کمیونیٹیز کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے کام کرتا ہے۔پاکستان میں، تحقیق اور جدت پر نیٹ ورک کی توجہ کارآمد ثابت ہوئی ہے کیوں کہ پاکستان کووِڈ19- اور 2022ء میں تباہ کن سیلاب کے بعد پاکستان اپنے حالیہ دور کے سخت ترین سالوں کا سامناہے۔

اس نیٹ ورک کا ایک جزو عالمی سطح پر اپنے معیار کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے اور یہ آغا خان یونیورسٹی (AKU) ہے جہاں ماہرین صحت فیلڈ میں پائے جانے والے بہت سے خطرات کے بارے میں تحقیقی کام کرتے ہیں۔ اپنے جدید طریقوں کے ذریعے، یونیورسٹی،پاکستان میں،کووِڈ کی نئی اقسام کے ارتقاء اور پھیلاؤ کا سراغ لگانے میں مصروف ہے اور ایک طویل مدتی حل کے طور پر دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ شراکت داری میں کام کررہی ہے تاکہ بچپن سے ہی معمول کے مطابق دئیے گئے تحفظ میں اضافہ کیا جا سکے۔

حالیہ سیلاب کے سلسلے میں آغا خان ایجنسی فار ہیبی ٹیٹ (AKAH) نے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے تیاری اور رد عمل کے حوالے سے لازمی کردار ادا کیا ہے۔سنہ 1998ء کے بعد سے، ایجنسی کی ٹیموں نے کمیونٹییز کو مختلف قدرتی آفات کے بارے میں پیشگی آگاہی، اْن سے نمٹنے کے انتظام، تباہی کے رُونما ہونے کے وقت تیاررہنے اوربہتر طریقے سے دوبارہ تعمیر اتی کام کیا ہے۔مقامی طور پر دستیاب معلومات اور جیوگرافک انفارمیشن سسٹم (GIS)کی مدد سے فیلڈ کے سروے سے حاصل ہونے والے ڈیٹا، ریموٹ سینسنگ اور جیو اسپیشل ڈیٹا کو ملا کر AKAH نے گلگت-بلتستان اور
چترال کے 677 دیہاتوں کے لیے تفصیلی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور خطرات والے علاقوں کے نقشے تیار کیے ہیں۔ موسم کی نگرانی اور پیشگی اطلاع دینے والے نظاموں کے ذریعے، جو پورے پاکستان،افغانستان اور تاجکستان میں تقریباً400 دیہاتو ں کا احاطہ کرتے ہیں، مقامی ٹیموں کے ارکان اور کمیونٹیز موسمی رجحان کی مؤثر انداز میں نگرانی کر سکتے ہیں اور آنے والے خطرے کی پیشگی اطلاع دے سکتے ہیں۔ پیشگی اطلاع دینے والے اِن نظاموں نے پاکستان کے حالیہ سیلابوں کے دوران، جو ملک کے ایک تہائی حصے پر پھیلاہوا تھا، ہزاروں افراد کی زندگی بچائی ہے۔فوری نشا ندہی اور فوری تیاری کے ذریعے 9,000 افراد کو متاثرہ علاقوں سے نکالا گیا اور اُن کے لیے ہیلتھ کیئر کیمپس لگائے گئے جہاں 100,000 سے زائد افراد کا علاج کیا گیا۔

آج AKU، AKAH اور AKDNمیں شامل دیگر ایجنسیوں کے ذریعے انجام دیا جانے والا مؤثر کام، سنہ 1905ء میں سر سلطان محمد شاہ کی ابتدائی کوششوں سے شروع ہوا۔سائنس کی تعلیم اور ٹیکنالوجی سے آراستہ امت کے بارے میں اْن کی بصیرت موجودہ سیلاب، کووڈ19- اور دیگر آفات کے دوران، جن کا پاکستان کو برسوں سے سامنا ہے،سینکڑوں جانیں بچانے کے لیے اہم ثابت ہوئی ہے۔وہ بیج جو ایک صدی قبل بویا گیا تھا اور آغا خان سوم اور آغا خان چہارم کے ذریعے مسلسل پرورش پاتا رہا، اس نے آج پاکستانیوں کو اُن فوائد سے استفادہ کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔وقت خواہ اچھا ہو یا برا، فعال اور رد عمل کے طور پر کی جانے والی کوششوں کے ذریعے AKDN اْن لوگوں کے معیار زندگی میں پائیدار بہتری کے لئے کام کرتا ہے جن کی وہ خدمت کرتا ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔