مہنگائی کی نئی لہر کا خدشہ۔۔۔۔محمد شریف شکیب

وطن عزیز میں مہنگائی کی نئی لہر آنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطالبے پر وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی شرح 30روپے سے بڑھا کر 50روپے کرنے کی منظوری دی ہے دوسری جانب پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس کی شرح بڑھانے کی صدائے باز گشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ دوسری جانب آئی ایم ایف سے ملنے والی قرضے کی قسط کی ادائیگی بھی تاخیر کا شکار ہے جس کی وجہ سے معیشت پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ممکنہ طور پر پچاس روپے فی لیٹر اضافے سے ہر چیز کی قیمت پر اثر پڑے گا۔ گذشتہ پانچ مہینوں کے اندر ڈالر کی قدر میں پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے آج ڈالر 223روپے تک پہنچ گئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی تمام درآمدات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ تجارتی خسارہ بھی بڑھتا جارہا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔ مگر ہمارے ہاں پیٹرولیم لیوی اور سیلز ٹیکس کی شرح بڑھانے کی وجہ سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تیل اور ڈالر مہنگا ہونے کا اثر بجلی اور گیس کی قیمتوں پر بھی پڑا ہے۔دو سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے لئے قیمت 25روپے تک پہنچ گئی تین سو یونٹ خرچ کرنے پر قیمت تیس روپے اور چار سو یونٹ کی چالیس روپے ہوگئی ہے۔بجلی کی اصل قیمت کے مساوی مختلف نوعیت کے ٹیکس بھی صارفین سے وصول کئے جاتے ہیں۔ ابھی سردیاں شروع بھی نہیں ہوئیں۔ ملک بھر میں گیس کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی ہے۔ حکومت دعوی کرتی ہے کہ گھریلو صارفین کو گیس کی کمی نہیں ہونے دیں گے اس کے باوجود گھروں میں روزانہ چھ سے آٹھ گھنٹے گیس نہیں ہوتی۔اور اس کی قیمت بھی پچاس فیصد بڑھادی گئی ہے۔ حال ہی میں ایک وفاقی وزیر کا بیان آیا ہے کہ پوش علاقوں کو پائپ لائن سے گیس کی فراہمی میں خاطر خواہ کمی کی جائے گی اور انہیں ایل پی جی فراہم کی جائے گی۔ساتھ ہی یہ نوید بھی سنائی گئی کہ ایران سے گیس کی خریداری پر بین الاقوامی پابندی کی وجہ سے ترکمانستان سے گیس لانے کے منصوبے پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔ کورونا کی عالمگیر وباء نے دنیا کی معیشت اور تجارت پر نہایت منفی اثرات مرتب کئے تھے۔ اب دنیا کے دیگر ممالک اس منحوس معاشی چکر سے نکل چکے ہیں لیکن پاکستانی قوم پر کورونا کے منفی معاشی اثرات کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے ہیں۔آج مارکیٹ میں مرغی کا گوشت 190روپے، بڑا گوشت800روپے، چھوٹا گوشت1400روپے، ٹماٹر 220روپے، پیاز 180روپے کلو تک پہنچ گیا ہے۔ چاول کی قیمت گذشتہ چھ مہینوں کے اندر دوگنی ہوکر 320روپے کلو ہوگئی۔ دالیں، سبزیاں، دودھ، دہی، کوکنگ آئل، گھی، مصالحہ جات اور گھریلو ضرورت کی دیگر اشیاء کی قیمتوں میں ڈیڑھ سو سے دو سو فیصد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں بھی ہوشرباء اضافہ ہوا ہے۔ دس روپے میں ملنے والا پیناڈول کا پتہ اب 45روپے کا ہوگیا ہے۔ جبکہ تنخواہ دار طبقے اور مزدوروں کی اجرت میں مہنگائی کے تناسب سے کوئی اضافہ نہیں ہوا۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق مہنگائی کی شرح 24فیصد ہونے کی وجہ سے غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ملک کی پچاس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے کی سطح پر زندگی گذار رہی ہے۔ انہیں دو وقت کا کھانابھی میسر نہیں۔حالیہ بارشوں اور سیلاب نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ سندھ،بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں لاکھوں افراد آج بھی کھلے آسمان تلے پڑے ہیں ان کے پاس نہ کھانے کو کچھ بچا ہے نہ سردی سے خود کو بچانے کے لئے گرم کپڑے ہیں اور سرچھپانے کو چھت کی سہولت بھی چھن گئی۔ کسی ممکنہ انسانی المیے سے بچنے کے لئے عوام کو فوری ریلیف دینے کی ضرورت ہے حکومت کو سیاسی محاذ آرائی سے کچھ وقت نکال کر عوام پر توجہ دینی ہوگی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔