تلخ و شیریں۔۔۔۔آہ استاذ محترم ۔۔۔۔۔۔نثار احمد 

ابھی موبائل آف کر کے سونے کا سوچ ہی رہا تھا کہ ایک خبر نے نیند کا تیاپانچہ کر کے رکھ دیا ۔ خبر اپنوں کے داغ مفارقت دینے کی ہو پھر نیند آ بھی کہاں سکتی ہے؟ ۔ سو اب نیند چھوٹ چکی اور اور سکون روٹھ چکا ہے ۔ اپنے ہردلعزیز استاذ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کی رحلت کی خبر پر دل غمزدہ اور آنکھیں اشک بار ہیں۔
اب منقال میں صرف میں ہوں ، ذہن پر امڈ آتے ، یورش کرتے خیالات ہیں اور چترال کی ایک ٹھنڈی رات کی پہلی پہر ۔ دیوار پہ لٹکے گھڑیال کے پرشور ٹک ٹک کے علاوہ ساری فضا ساکت و جامد ٹھہری محسوس ہو رہی ہے ۔
پے در پے دماغ پر یلغار کرتی یادیں مجھے بیس بائیس سال پیچھے لے جا چکی ہیں۔ یہ زمانہء طالب کی ایسی حسین یادیں ہیں کہ ان سے باہر نکلنے کا من کر رہا ہے  اور نہ ہی اس زمانہء موجود میں آنے کو جی چاہ رہا ہے جس میں نہ صرف عالم اسلام کی مشہور دینی درسگاہ دارالعلوم کراچی اپنے  باغباں سے محروم ہو چکا ہے بلکہ مجھ جیسے ہزاروں ابناء جامعہ بھی اپنا عظیم استاذ کھو چکے ہیں ۔
یہ اکیسویں صدی کے دوسرے سال کا تقریباً آغاز ہے۔ ہماری لڑکپن کی عمر  آخری ہچکولے کھا رہی ہے۔ جوانی کی دہلیز بس دو تین سالوں کے فاصلے پر ہے ۔ دارالعلوم کراچی کے شعبہء تجوید و قرآت میں میرا داخلہ ہو چکا ہے۔ میرے وہ دوست میری قسمت پر رشک کر رہے ہیں جنہوں نے میرے ساتھ یہاں داخلہ لینے کی کوشش کی تھی لیکن داخلے کے امتحان کا مرحلہ بہ کامیابی عبور نہیں کر سکے تھے۔ میں خود بھی خوش ہوں ۔ خوش کیوں نہ ہوتا کہ ایک ایسے خوبصورت، منفرد، بے نظیر، اور مثالی تعلیمی ادارے میں میرا داخلہ ہو چکا ہے جس میں بچے کو سوائے پڑھائی کرنے کے کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا ۔ مدرسے کا جو نقشہ پہلے سے زہن میں مستور و موجود تھا یہ اس سے بالکل مختلف ہے ۔ یہاں طلبا کی آسائش و راحت کا ہرممکن خیال رکھا جاتا ہے۔
رہنے کے لیے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کشادہ کمرے ہیں ، ہر کمرے میں تین یا پانچ طالب علموں کے رہنے کی گنجائش۔ ایک کمرے کے اندر ہر طالب علم کے لیے الگ چارپائی ، الگ ٹیبل ، الگ بک شیلف ،الگ الماری، الگ پنکھا، اور الگ ٹیوب لائٹ ۔  ستر ایکڑ سے زیادہ رقبے پر پھیلے دارالعلوم کا چپہ چپہ حسن ِ انتظام ، ترتیب اور سلیقے کا ایسا خوبصورت شاہکار ہے کہ دیکھنے والا اس کے منتظم و مہتمم کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔  درسگاہیں ، رہائشی عمارتیں اور اساتذہ کے مکانات ہی خاص ترتیب کے ساتھ نہیں بنائے گئے ہیں ، چمن ، کیاری اور درخت غرض ہر چیز میں میں ترتیب و سلیقے کا مرقع نظر آ رہی ہے ۔
اس ادارے کو ایسا بے مثال ادارہ بنانے کی پشت پر جس نفیس الطبع ، منتظم ہستی کی فکر و عمل کارفرما ہے اسے باہر کی دنیا میں مفتی اعظم پاکستان ، جب کہ دارالعلوم کے احاطے میں حضرت صدر صاحب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دارالعلوم کے فضلا کے لیے لفظ “صدر صاحب” سے جو انسیت، الفت اور محبت وابستہ ہے وہ کسی اور لفظ میں نہیں ۔
صدر صاحب  سے طلبا کی محبت بھی والہانہ تھی اور تعلق بھی اٹوٹ تھا۔ صدر صاحب ایک شفیق ، رحم دل اور وضعدار روحانی باپ کا کردار اس خوبی سے نبھاتے تھے کہ گھر سے کوسوں دور پردیس میں رہنے والے کسی طالب علم کو احساس تک نہیں ہوتا وہ گھر سے دور ہے ۔
 دارالعلوم کراچی میں انسانوں کی ایک پوری بستی آباد ہے۔ اس بستی کے فرمان روا صدر صاحب رح کی تمام تگ و دو کا مرکزی نکتہ طالب علم ہے ۔ صدر صاحب دن رات بس اسی ایک خواہش کو عمل کی چادر اوڑھانے میں منہمک  رہتے کہ دارالعلوم کراچی میں داخل ہونے والا ہر طالب ہمہ قسم کی مشاکل و مصائب سے بے پروا ہو کر اپنی  تمام توجہات کا مرکز حصول ِ علم کو بنائے ۔
صدر صاحب چونکہ دورہ ء حدیث میں پڑھاتے تھے یا پھر تخصص میں ۔ اس لیے شروع شروع میں ہم نچلے درجات کے طالب علموں کو یا تو نمازوں میں نظر آتے تھے یا پھر نمازِ فجر کے بعد چہل قدمی کرتے ہوئے ۔ دراصل روزانہ نمازِ فجر کے بعد دارالعلوم کا چکر لگانا صدر صاحب کا معمول تھا ۔ سفید کپڑے زیب تن کیے ، سفید ٹوپی سر پہ دھرے ایک ہاتھ میں سفید رومال ڈال کر حضرت صدر صاحب رح  جب ہم طالب علموں کے سامنے سے گزرتے تو ہمارے دل میں  موجود محبت و احترام کے جذبات خوب مچلتے۔ البتہ یہ محبت بس دل میں ہی رہتی۔ اظہار کا روپ کبھی نہ دھار پاتی۔ شاید اظہار کی راہ میں واحد رکاوٹ حضرت کی جلالی کیفیت تھی۔  ایسا نہیں تھا کہ مزاج میں یہ وقار و جلال کسی تکبر و رعونت کی وجہ تھا۔ حاشا و کلا۔ ہرگز نہیں۔  تکبر کی “ت”  بھی حضرت کو چھو کر نہیں گزری تھی ۔
دراصل صدر صاحب کی نظر میں نظم وضبط، ترتیب ، سلیقہ ، متانت ،وقار ، ڈھنگ اور نفاست جیسے الفاظ بھرپور معنویت بھی رکھتے تھے اور بڑی اہمیت بھی۔
ترتیب و سلیقہ اور حسنِ انتظام  کی یہ جھلک دارالعلوم کے چپے چپے میں ہی نہیں ، آپ کی شخصیت میں بھی نمایاں و عیاں ہوتی تھی۔
صوابی سے تعلق رکھنے والے ہمارے ہم جماعت ساتھی دارالعلوم کی مسجد میں مؤذن تھے ۔ وہ گپ شپ میں کہتے رہتے تھے کہ جمعے کے دن میرے لیے مشکل مرحلہ اذان ِ جمعہ کے بعد خطبہ و نماز کے لیے امام (صدر صاحب ) کو مائک لگانا ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس دوران معمولی غفلت کی وجہ سے بھی حضرت کی ٹوپی ٹیڑھی میڑھی ہو کر حضرت کے مزاج پر بھاری پڑتی ہے ۔
اسی طرح  دارالعلوم کے حجام کو یہ کہتے میں نے سنا تھا کہ
جب حضرات کے بال کاٹنے جاتا ہوں تو شیخ الاسلام صاحب کی ٹینشن نہیں لیتا۔  کیوں کہ شیخ الاسلام صاحب سر میری مرضی پر چھوڑ کر سامنے کتاب کھول دیتے ہیں۔ وہ اپنا کام کرتے ہیں میں اپنا کام۔ زیادہ سے بیچ میں یہ کہتے ہیں کہ بھئی جلدی کرو وقت آپ نے زیادہ لے لیا۔ جب کہ صدر صاحب کے سر کے بال کاٹتے ہوئے مجھے بہت زیادہ خیال رکھنا پڑتا ہے ۔
طالب علمی کے اس حسین دور میں ہمارے لیے سب سے باعث ِ مسرت لمحہ وہ ہوتا جب ہم نمازِ مغرب کے بعد مائک سے اعلان  سنتے کہ طلبہ مسجد میں ہی رہیں ابھی حضرت صدر صاحب کا بیان ہو گا۔
دو تین مہینے کے وقفے سے ہونے والا یہ بیان نہایت مزیدار ہوتا۔
اس بیان کے آخری لمحات میں بیان کی حلاوت اپنے جوبن پر ہوتی۔
ایک تو بیان بڑا دل چسپ ہوتا ۔ بیان کیا ، بس ایک شفیق باپ کی اپنی روحانی اولاد سے گپ شپ ہوتی ۔ جس میں تربیت کا عنصر بھی ہوتا اور طلبا کے مسائل سے آگاہی بھی۔ طلبا پرچیوں کی صورت میں اپنی تجاویز و شکایات صدر صاحب تک پہنچانے اور صدر صاحب اسی وقت انہیں حل کرتے ۔ البتہ اس میں جس چیز کا اعلان طلبہ کی پیشگی شکایت سے پہلے ہی کرتے وہ وظیفے کی زیادتی کا اعلان ہوتا۔ ہر قمری مہینے کی غالباً پندرہ تاریخ کو ناشتے اور دیگر اخراجات کے لیے تمام طالب علموں کو جیب خرچ ملتا۔ اسے وظیفے کا نام دیا جاتا ہے ۔ وظیفے کی زیادتی کا اعلان کو سن کر طلبا جتنا خوش ہوتے تھے اس سے دوگنی خوشی طلبا کو خوش دیکھ کر حضرت صدر صاحب رح کے سفید داڑھی سے مزین چہرے پر پھیلتی ۔ جب دو ہزار ایک میں دارالعلوم کے شعبہء تجوید میں میرا داخلہ ہوا تھا اس وقت میرا وظیفہ 290 روپے ماہانہ تھا ۔ جب سن دو ہزار پندرہ میں دارالعلوم چھوڑ کر آ رہا تھا تب وظیفے کی یہ رقم تین ہزار ( 3000) سے متجاوز ہو چکی تھی (تخصص فی الدعوہ کے آخری سماہی میں میں نے دارالعلوم کو الوداع کیا تھا)۔
آج جب صدر صاحب ہم میں نہیں رہے ہیں تو دارالعلوم بالخصوص  صدر صاحب سے جڑے بہت سے واقعات زہن کی اسکرین میں چل رہے ہیں۔
 رمضان المبارک کے دنوں کے وہ مناظر زہن میں تازہ ہو رہے  ہیں جب مسجد میں دو سفید ریش بوڑھے تراویح کی تیاری کے لیے قرآن کریم  ایک دوسرے کو سنا رہے ہوتے۔ آواز اونچی لیکن لہجہ دھیما۔ سن کر اتنا مزہ آتا ہے کہ بیٹھ کر بس سننے کا ہی من کرتا۔  ایک سناتے ہیں تو دوسرا قرآن پکڑ کر سنتے ہیں جب دوسرا سناتے ہیں تو پہلا قرآن پکڑ کر سنتے ہیں  ۔ تہتر تا پچھتر سال کے ان سفید ریش بزرگوں میں سے ایک (قاری محمود رح) کا سالوں پہلے انتقال ہوا تھا جب کہ دوسرا (حضرت مفتی رفیع عثمانی رح)  کل داغ مفارقت دے گئے ۔
اسی طرح دورہ ء حدیث میں مسلم شریف پڑھاتے ہوئے جب کوئی سبق مشکل ہوتا تو صدر صاحب آستین چڑھا کر بڑے ہی جوش و خروش سے پڑھاتے ، سمجھاتے اور مشکل بحث  ہم طلبا کے ذہنوں میں بٹھانے کی کوشش کرتے ۔ کیا ہی یادگار دن تھے وہ ۔
چودہ اگست وغیرہ کے موقع پر تحریک پاکستان پر تقریر کے دوران صدر صاحب فرمایا کرتے تھے جب یہ تحریک زوروں پر تھی تو ہم بچے تھے۔
” بٹ کے رہے گا ہندوستان ، بن کر رہے گا پاکستان” “مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ ” جیسے نعرے ہمیں ازبر ہوئے تھے اور ہم بچہ پارٹی ان نعروں کو بلند کرتے ہوئے جلوس نکالتے تھے”۔
حضرت صدر صاحب کو فرقہ واریت سے سخت نفرت تھی ۔ ملک خداداد میں فرقہ واریت کا زمہ دار تیسری قوت کو ٹھہراتے تھے۔
 ایک واقعہ بہت سناتے تھے ۔
“ایک دفعہ ایک ٹیکسی سے دارالعلوم کے گیٹ کے باہر فائرنگ کی گئی ۔ تھوڑی دیر قریبی ایک امام بارگاہ پر بھی فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ۔ پوچھ تاج پر معلوم ہوا کہ ایک ہی ٹیکسی تھی جس سے دیوبندیوں کے بڑے مدرسے کے گیٹ پر بھی فائرنگ کی گئی اور اہل تشیع کے امام بارگاہ کے دروازے پر بھی ۔ “
اس طرح صدر صاحب تعلیم برائے تعلیم کے قائل نہیں تھے ۔ حاصلات ِ تعلّم کو عملاً برتنے اور تربیت پر بہت زور دیتے تھے ۔
فرماتے۔
دین صرف پڑھنے کی چیز نہیں ، عملاً سیکھنے کی بھی ہے ۔
اپنی گفتگو میں دو مثالیں  ڈرائیونگ اور کوکنگ کی ہمیشہ دیتے ۔
“جس بندے کو ڈرائیونگ کے سارے اصول ازبر ہوں لیکن عملاً اس نے ڈرائیونگ سیکھی نہ ہو ، اس کے ساتھ  کوئی بیٹھے گا؟۔ میں تو نہیں بیٹھوں گا بھئی تمہاری مرضی”۔۔
اسی طرح فرماتے ۔
” جس بندے کو بریانی کی ساری ترکیب زبانی یاد ہو لیکن پریکٹیکلی اس نے پکا پکا کر اس ترکیب کے اطلاق کی مشق نہ کی ہو۔ اگر مہمانوں کے لیے بریانی بنائے گا تو اس کی پکائی ہوئی چیز کچھ اور بنے تو بنے کم ازکم بریانی نہیں بنے گی۔”
 تعصب کی کسی بھی شکل سے صدر صاحب کو نہ صرف تنفر تھا بلکہ ہمیں بھی اس سے اجتناب برتنے کی سختی سے تاکید فرماتے تھے ۔ اپنا یہ واقعہ بتکرار سناتے۔
” زمانہء تخصص میں ایک استفتاء کے جواب میں (غالباً یہ پہلا فتویٰ تھا) فتویٰ لکھ کر جب والد صاحب کے پاس توثیق و تصویب کے لیے لے گیا۔ والد صاحب نے سخت لہجے میں فرمایا آپ کے اس نام سے تعصب کی بو آتی ہے ۔ نام کے لاحقے میں “دیوبندی” ہٹاو۔ درحقیقت میں نے اپنا نام محمد رفیع دیوبندی لکھا تھا. اس کے بعد میں نے نام کے ساتھ دیوبندی لکھنا چھوڑ دیا ۔”
بیسیوں کتابوں کے مصنف و مؤلف مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع مجھ جیسے ہزاروں شاگردوں کو سوگوار چھوڑ کر چلے گئے اللہ تعالیٰ آپ کو کروٹ کروٹ چین نصیب فرمائے ۔
نوٹ ۔ آدھی تحریر کل لکھی تھی اور آدھی آج عشاء کے بعد..
سابقہ یاد داشتوں کی بنیاد پر تحریر لکھی گئی ہے ۔ بعض باتوں میں انیس بیس کا فرق ہو سکتا ہے.
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔