معاشرے کی تطہیر کا فارمولہ۔۔۔محمد شریف شکیب

وزیر اعلیٰ محمود خان نے صوبائی حکومت کے ماتحت اداروں کو اپنا قبلہ اور صفیں درست کرنے کی ہدایت کی ہے۔
آئی جی پولیس کو وزیر اعلی نے سٹریٹ کرائمز کے خلاف کریک ڈاؤن کی ہدایت کی۔
ورکس اینڈ سروسز ڈپارٹمنٹ سمیت قومی تعمیر کے محکموں کے سربراہوں کو کرپٹ ملازمین کے خلاف چار دنوں میں رپورٹ مرتب کرکے پیش کرنے کا بھی حکم دیا۔
وزیر اعلی نے تمام اضلاع کی
انتظامیہ کو پٹواریوں کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھنے کی تلقین کی۔موجودہ صوبائی حکومت کا آخری سال چل رہا ہے۔پی ٹی آئی کے سربراہ نے موجودہ اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان بھی کیا ہے اپنے قائد کے فیصلے کی تائید میں خیبر پختونخوا اور پنجاب کے کئی اراکین نے اپنے استعفے بھی میڈیا میں شو کردئیے ہیں۔اگر پی ٹی آئی اسمبلیوں سے نکل جاتی ہے تو صوبائی حکومت کے پاس چند دن ہی باقی ہیں ان چند دنوں یا مہینوں کے اندر پچھتر سالوں میں پھیلایا ہوا گند صاف کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ صوبائی حکومت کی نیک نیتی شک و شبے سے بالاتر ہے انہوں نے مختلف صوبائی محکموں میں وسیع پیمانے پر اصلاحات بھی متعارف کرائی ہیں اور حکومت چاہتی ہے کہ ان اصلاحات کے ثمرات بھی نظر آنے چاہئیں۔جہاں تک انفراسٹریکچر کو۔ بہتر بنانے کا تعلق ہے صوبائی حکومت کی کارکردگی قابل تقلید اور شاندار رہی ہے۔دس سال قبل اور آج کے ہسپتالوں کا موازنہ کریں تو زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔سکولوں میں سٹاف کی حاضری کادیرینہ مسئلہ حل کردیا گیا۔تمام سکولوں میں بائیو میٹرک سسٹم نصب کیا گیا۔ مانیٹرنگ ٹیمیں صوبہ بھر میں سٹاف کی سو فیصد حاضری یقینی بنا چکے ہیں۔تاہم کرپشن، خیانت کاری، رشوت ستانی، ذخیرہ اندوزی، گرانفروشی، ملاوٹ اور جعل سازی پر قابو نہیں پایاجاسکا۔آج بھی سرکاری دفاتر میں نوٹوں کا پہیہ لگائے بغیر فائل آگے نہیں جاتی، مٹھی گرم کئے بغیر جائز کام بھی نہیں نکلتے۔سب کو معلوم ہے کہ رشوت دینے اور لینے والے دونوں جہنمی ہیں مگر منہ کو اس کافر کی لت لگی ہوئی ہے آسانی سے کہاں چھوٹتی ہے۔ان تمام برائیوں سے نجات اور معاشرے کی مکمل تطہیر کا واحد راستہ یہ ہے کہ جرائم کے سد باب کے لئے اسلام کے تعزیری قوانین نافذ کی جائیں کرپشن ، خیانت اور چوری، ڈاکہ زنی کرنے والوں کے ہاتھ کاٹنے کی سزا نافذ ہوجائے۔ زنا کار کو سرعام کوڑے لگانا شروع کردیں تو سارا معاشرہ سدھر جائے گا۔پی ٹی آئی کے قائد اپنی ہر تقریر میں ریاست مدینہ کی مثال دیتے ہیں۔ مدینہ کی ریاست میں اسلامی قوانین نافذ تھے یہی وجہ ہے کہ وہاں کا معاشرہ مثالی بن گیا تھا۔وہی جذبہ ایمانی ہم میں پیدا ہو تو آج بھی مثالی معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔ بقول شاعر مشرق۔
آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا۔۔آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا۔

 

 

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔