چارہ گر خود بیچارے بن گئے…محمد شریف شکیب

کہتے ہیں کہ جب یتیم روزہ رکھے تو دن بھی لمبے ہوجاتے ہیں۔ اہل ریشن کے مقدر میں جو سختی ہے وہ معاف ہوتی نظر نہیں آتی۔ سرخ مٹی کی سرزمین اور افسانوی شہرت کا حامل اپر چترال کا خوبصورت گاوں ریشن دو اطراف سے قدرتی آفات کی زد میں ہے۔ شاید کسی بد نظر کی نظر بد اس گاوں کو کھا گئی ہے اوپر سے گلیشیئر پھٹنے سے ہر سال سیلاب آتا ہے اور نیچے دریا چترال کی مسلسل کٹائی سے ایک تہائی گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے۔ریشن نالے کے قرب وجوار میں لوگ تعمیرات کرتے اور باغات لگاتے رہے اور سیلاب انہیں مٹاتا رہا۔ اب گذشتہ چند سالوں سے لوگوں نے تعمیرات چھوڑ دی ہیں نالے کے کناروں پر پشتوں کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ دریا کے کٹاو سے ریشن کو بچانے کی فکر سرکاری اداروں کو اس وقت دامن گیر ہوتی ہے جب دریا اپنی جوبن پر ہوتا ہے اور اس کی بے قابو لہریں زیریں ریشن کے مکانات، باغات اور زرخیز زمینوں کو نگلنے لگتی ہیں۔ دریا کے کٹاو کی وجہ سے ریشن کے داخلی مقام شادیر میں اپر چترال کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والی سڑک بھی دریابرد ہوچکی ہے۔ مقامی لوگوں نے اپنے مکانات گرا کر اور باغات وفصلیں کاٹ کر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عارضی سڑک کے لئے جگہ دی تھی سیاسی رہنماوں اور اعلی سرکاری افسروں کی طرف سے متاثرین کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ایک ماہ کے اندر ان کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا۔ دریا کے کٹاو کی وجہ سے تقریبا چالیس گھرانے بے گھر ہوچکے ہیں اور وہ گذشتہ دوتین سالوں سے کھلے آسمان تلے پڑے ہیں مگر ان کی بحالی و آبادی کاری کے وعدے ابھی تک پورے نہیں ہوسکے۔حکومت کی بار بار وعدہ خلافیوں سے تنگ آکر شادیر کے مقام پر متاثرین نے اپر چترال کا واحد زمینی راستہ بلاک کردیا ہے۔ان کا مطالبہ ہے کہ متاثرین کو فوری طور پر معاوضہ دیا جائے۔ بے گھر لوگوں کی آبادکاری کے لئے مناسب اقدامات کئے جائیں اور دریا کنارے مضبوط پشتوں کی تعمیر پر کام شروع کیاجائے۔اب دریا کی سطح گر چکی ہے اگر آنے والے چار مہینوں کے دوران دریا کنارے پشتوں کی تعمیر کا کام ابھی سے شروع کیاجائے تو دریا میں طغیانی آنے سے پہلے ریشن کو مزید تباہی سے بچایاجاسکتا ہے۔مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ اب تک حکومت کے پاس یہ جواز ہے ملک کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے بھی خزانے میں پیسے نہیں ہیں۔ سیاست دان ایک دوسرے پر معیشت کی کشتی ڈبونے کے الزامات لگارہے ہیں عوام بخوبی جانتے ہیں کہ قومی اداروں کو کرپشن کا گڑھ بنانے، مہنگائی اور بے روزگاری کو تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچانے اور معیشت کو دیوالیہ ہونے کے قریب لانے میں سب نے اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کیا ہے۔عوام جن سے انصاف کی توقع رکھتے ہیں وہ خود اپنے ساتھ ناانصافی کا رونا رورہے ہیں۔اس لئے اہل ریشن کو کچھ عرصے مزید تباہی و بربادی کی سختیاں جھیلنی پڑیں گی کیونکہ جو چارہ گر تھے وہ خود بے چارے بن گئے ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔