وہ دکھی دیس کی کوئل تھی …تحریر: شہاب ثنا

عزم و ہمت کی لازوال داستان، جنوبی ایشیا کی سیاست میں ایک تبدیلی،ایک خاتون ہزار مردوں پر بھاری وہ کوئی اور نہیں بے نظیر تھی۔اس کی مثال نہیں تھی اسلامی دنیا کہ پہلی خاتون وزیراعظم شہید جمہوریت محترمہ بینظیر بھٹو کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 15 برس بیت گئے۔۔محترمہ ایک اعلیٰ پائے کی لیڈر تھیں جنہیں پوری دنیا میں قدر ومنزلت حاصل تھی وہ ایک عوامی لیڈر ہونے کے علاؤہ اعلی پائے کی مدبر، بہترین منتظم،بہترین سفارتکار اور علم دوست بھی تھی جنھیں مطالعے کا بھی بے حد شوق تھا جو شاید ہی آج کے کسی سیاست دان کو ہو ۔اسے پاکستان کی بدقسمتی کہیے کہ دونوں بار اس کی منتخب حکومتوں کو سازش کے ذریعے چلتا کردیا گیا۔۔
آج سے تقریباً 15 سال پہلے اسی دن میری پیپر تھی شام کو جب گھر لوٹے تو بھائی نیوز پر بے نظیر بھٹو کی جلسے بڑی شوق سے دیکھ رہا تھا اس نے آواز دی کہ بی بی پر حملہ ہوگیا تھوڑی دیر بعد اے آر وائی پر بریکنگ نیوز کہ بے نظیر بھٹو ہم میں نہیں رہی ایسی خاتون جس کی رحلت کی خبر سن کر ہر آنکھ اشک بار تھی۔۔بے نظیر سچ میں بے نظیر تھی اس کی مثال ملنا بہت مشکل ہے۔
یہ ایک سیاسی قتل تھا اس کا الزام کہیں نا کہیں اسامہ بن لادن،تیریک طالبان یا اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے زمہ بھی ہے ۔کوئی سیاسی قتل ہو کسی حکومت کے اقتدار کے بارے میں تناظر ہو یا کسی ادارے کا کردار ہو سازشی افواہوں اور قیاس آرائی کا بازار ہمیشہ گرم رہتا ہے۔اس قتل کے قانونی اور تفتیشی وجوہات سے زرا ہٹ اس کے سیاسی پس منظر ، بین الاقوامی طاقتوں اور پاکستان کے عوام کا بے نظیر بھٹو سے محبت کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس حقیقی صورتحال کا بہتر اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو اس کی وجہ بنی۔
جمہوریت کے قیام کے لیے محترمہ کی قابل قدر خدمات تھی اپنے دور حکومت میں بی بی شہید نے جمہوریت کو قائم رکھنے کی کوشش کی اور ہر فورم پر مزدوروں،خواتین اور محنت کشوں کی آواز بنتی رہی ۔اس کے بعد حکمرانوں نے سفاکی سے سامراجی اداروں کے نسخوں کے تحت مہنگائی اور محرومی کی انتہا کروا دی۔جمہوریت قائم رہی لیکن عوام کچلے جاتے رہے آج جمہوری حکومتوں میں چہرے بدلے ہیں نظام نہیں، حکومتیں بدلی ہیں عوام کے حالات نہیں۔اس نظام زر میں حاکمیت کا انداز کچھ بھی ہو معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا اور محنت کش عوام کی حالت نا قابل بیان ہے۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم ان قوتوں کی آنکھ میں کھٹکتی تھی جو تہذیبوں کے تصادم کو فروغ دینا چاہتی ہیں کیونکہ وہ مفاہمت پر یقین رکھتی تھی ۔وہ لوگوں کو قریب لانا چاہتی تھی۔ان کی تحریریں ان کی شخصیت کے اس پہلو کی آئنہ دار ہیں وہ کہتی تھی کہ زندگی چند دن کی ہے اس لئے فاصلوں کو مٹانا چائیے اور ہر وقت مثبت انداز فکر اپنانا چاہیے بی بی کی مثبت سوچ کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ دنیا سے غربت و افلاس کا خاتمہ اور اسے امن کا گہوارہ بنانا چاہتی تھی۔بی بی کی شہادت پاکستان ہی نہیں جنوبی ایشیا کی تاریخ میں ایک نقصان دہ واقعہ تھا ایک انتہائی با صلاحیت دنیا بھر میں ایک قابل قبول سیاست دان سے اس خطہ کے متوقع بہتر مستقبل کو محروم کیا گیا۔بے نظیر جیسی شخصیت کو پیدا کرنے میں اس خطہ کو مزید کئی دہائیوں اور سخت حالات سے گزرنا پڑے گا۔۔
شہید جمہوریت محترمہ بینظیر بھٹو میرے جیسے کروڑوں لوگوں کے دلوں میں زندہ تھی اور ہمیشہ زندہ رہے گی۔
وقت کے گزرنے پر تم جو بھول جاؤ گے۔
ہم تمہیں بتائیں گے بے نظیر جیسی تھی۔۔
زندگی کے ماتھے پر وہ لکیر جیسی تھی ۔۔
ظلم کے نشانے پر ایک تیر جیسی تھی۔۔
بے نظیر بھٹو بس بے نظیر جیسی تھی۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔