پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سابق وزیر اعظم عمران نے کالاش کمیونٹی کو نمائیندگی دی۔معاون خصوصی وزیرزادہ

چترال ( محکم الدین ) چترال کی کالاش کلچر کو قدیم ترین تہذیب و ثقافت میں شمار کیا جاتا ہے ۔ اور پوری دنیا سے سیاح و پاکستان کے اعلی حکام اس منفرد کلچر کو دیکھنے کیلئے چترال آتےہیں۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہےکہ پاکستان کے اس انڈیجنس کمیونٹی کو سرکاری اور قانونی طور پر تاحال شناخت نہیں دی گئی ہے۔ شناختی کارڈ بنانےکیلئےنادراکا فارم ہو یا پاسپورٹ فارم اس میں کالاش کمیونٹی کے مذہبی شناخت کا خانہ موجود نہیں ہے ۔ جس کی وجہ سے اس مذہب کے حامل افراد کو اپنا مذہب مجبورا ( دیگر) کے خانے ڈالنا پڑتا ہے ۔ جس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ ان کا تعلق کس مذہب سےہے۔ یوں اہمیت کی حامل یہ کمیونٹی سرکاری طور پر نام سےمحروم ہے ۔ کالاش کمیونٹی سےتعلق رکھنےوالے سوشل ایکٹی وسٹ لوک رحمت جو اس شناخت کے لئے مسلسل جدوجہد میں لگے ہوئےہیں ۔ بالاخر نادرا فارم میں اپنےمذہب کا خانہ شامل کرنے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کی ہے ۔ تاہم پاسپورٹ ، برتھ سرٹفیکیٹ وغیرہ میں اس کا اندراج اب بھی نہیں ہو سکا ہے ۔ جس سے کام اب بھی ادھوری ہے ۔ کالاش شناخت کے حوالےسے معاون خصوصی وزیر زادہ کی کوششیں بھی لوک رحمت کے ساتھ شامل ہیں اور انہیں یقین ہے کہ بہت جلد وہ اس مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ گذشتہ روز معاون خصوصی وزیر اعلی خیبر پختوخوا وزیر زادہ نے کالاش شناخت اور کالاش ویلیز میں ہونے والی ترقیاتی منصوبوں ، سیاحت کے فروغ اور کلچر کے تحفظ کے بارے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سابق وزیر اعظم عمران نے کالاش کمیونٹی کو نمائیندگی دی۔ جس کی بدولت وہ علاقے میں ترقیاتی کاموں کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کا ملازمتوں میں کوٹہ بڑھانےمیں کامیاب ہو گئے۔ اور گذشتہ دو سالوں کے دوران کالاش کمیونٹی کے سات نوجوان لیکچرز بھرتی ہوئے ۔ اسی طرح دیگر ملازمتیں بھی حاصل کر رہے ہیں ۔ حکومت اقلیتوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کررہا ہے ۔ انہوں نےکہا  کہ کالاش کلچر کے تحفظ اور سیاحت کی ترقی کیلئےکالاش ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے  جس کےذریعے سیاحت کیلئے بہتر انفراسٹرکچرکی تعمیر کے ساتھ علاقےکو ماحولیاتی آلودگی سے پاک کرنے اور منظم سیاحت کیلئے لائحہ عمل تیارکیا جارہا ہے۔ تاکہ مقامی کمیونٹی کو موجودہ وقت میں بےہنگم سیاحت سےجو مشکلات درپیش ہیں ۔ ان پر قابو پایا جا سکے ۔ سیاحت کی ترقی کیلئے سابق وفاقی حکومت نے چترال شندورروڈ 21 ارب روپے اورکالاش ویلیز روڈ کو ساڑھے 6 ارب روپے کی لاگت سے شروع کیا تھا ۔ مگر موجودہ حکومت نے مختص شدہ فنڈ بند کرکے کام روک دی ہے۔ تاہم یہ سڑکیں ہوکے رہیں گے ۔ انہوں نے کہا اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ۔ کہ کالاش وادیوں میں سرکاری عمارات مقامی تعمیرات سے مطابقت نہیں رکھتے ۔ جن کی دیکھا دیکھی لوگ قدیم ثقافتی عمارات گرا کر نئی تعمیرات کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وادی کی قدیم عمارات ہیرٹیج کی حیثیت رکھتےہیں ۔ جن کی حفاظت انتہائی ضروری ہے ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔