دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔”فلاحی ریاست کا خواب “ ۔۔۔محمد جاوید حیات

پاکستان کے لۓ جب تحریک چل رہی تھی تو عوام کو فلاحی ریاست کا خواب دیکھایا جارہا تھا ۔امن اور خوشحالی کا خواب ، ترقی کا خواب ، دنیا میں نام شام بنانے کا خواب ، عدل و انصاف اور بھاٸی چارے کا خواب ، ایک دوسرے کا خیال رکھنے ،دکھ درد بانٹنے کا خواب ۔۔۔اور کتنے خواب ہونگے جو دیکھاۓ جا رہے تھے اور ان کی تعبیر کےپھر سنہرے خواب دیکھاۓ جا رہے تھے ۔ان خوابوں کے سحر میں جکڑی ہوئی قوم نے بے مثال قربانیں دیں اور علیحدہ ریاست پاکستان کے نام پہ قائم ہوئی ۔۔۔یہ خوابوں کی سرزمین تھی ۔لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر جوق در جوق اپنے خوابوں کی اس سرزمین کی طرف ہجرت کرنے لگے ۔راستوں میں لوٹے گۓ کیا کیا مصیبتیں اور افتاد ان پہ آپڑیں لیکن ایک خواب ایک جذبہ ان کو اس منزل کی طرح کھیچ رہا تھا وہ خوابوں کی سرزمین کا ”خواب“ تھا ۔۔۔جب یہ لوگ یہاں پر پہنچے تو کچھ اور سماں تھا مہاجر کیمپوں میں ان پہ جو بیتی ان کے تاریخی شواہد موجود ہیں لیکن ان مصیبتوں کے بعد بھی وہ ان خوابوں کی تعبیر کے انتظار میں رہے ۔ان کے خوابوں کی سرزمین پر امن ہوگا ہر طرف خوشحالی ہوگی حکمران اٸڈیل ہونگے ۔عدل انصاف کی فراوانی ہوگی محبت احترام اور ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹنے کی مشقیں ہونگی ایثار و قربانی کی مثالیں پیش کی جاٸیں گی ۔لیکن انتظار کی گھڑیاں طویل ہوتی گٸیں ۔خواب دیکھنے والے اسی طرح خواب دیکھتے رہے ۔ان کی مایوسیاں ، ان کی محرومیاں ان کی آزماٸشیں اسی طرح رہیں ۔ان کا کارواں اسی طرح تھکن سے چور ہی رہا ۔ان پر راستے کی دھول اسی طرح پڑتی رہی وہ نیر بہاتے رہے ان کی اشک شوٸی کرنے والے کہیں سے نہ ملے ۔چاہیۓ تھا کہ ان کے خوابوں کی سرزمین حقیقت کا روپ دھار لیتی ۔۔۔ چاہیۓ تھا کہ ان کے بزرگ ان کو وہ تکلیفوں کے بیتے لمحے ،وہ غلامی کے دن ،وہ ظلم وبربریت اور محرومی کے قصے سناتے اور ان کو اللہ کا شکرادا کرنے کو کہتے نئی نسل اللہ کا شکر ادا کرتی اور عزم کے ساتھ آگے بڑھتی مگر آج بزرگ انگشت بدندان ہیں نوجوان حیران و پریشان ہیں ۔ایک طرف موج مستی ہے دوسری طرف انسانیت ایک لقمے کو ترس رہی ہے ۔ایک طرف شاہ خرچیاں ہیں دوسری طرف قرضے پہ قرضے چھڑ جا رہے ہیں دنیا کی کونسی قوم ہوگی جو قرضوں پہ عیاشی کرے گی ۔ہمارےبزرگوں کوچاہیۓ تھا کہ پہلے قوم بناتے پھرریاست حاصل کرتے دنیا کی جو قومیں عروج کو پہنچتی ہیں تو فطرت کا قانون ہے کہ ڈوب کر ابھرتی ہیں ہمارے ہاں جو طبقہ ڈوبا تھا وہ ابھر نہیں رہا جو اس وقت بھی دھندوں اور موج مستیوں میں تھے وہ آج اس قوم کے ہراول دستے ہیں ان کو کیا پتہ کہ اس ریاست کے خواب کیا تھے اس کو حاصل کرنے میں کیا کیا قربانیاں دی گٸ تھیں ۔ان کو محرومی کا کبھی احساس نہ رہا وہ بھوک اور افلاس نہیں جانتے وہ انصاف کے کٹہرے میں کبھی کھڑے نہیں ہوۓ ان کے ناشتے کی میز پہ کبھی سوکھی روٹی نہیں آٸی ان کے بچے کبھی پرانے کپڑے نہیں پہنے وہ عوام کا دکھ درد کیا جانیں ۔ان کو فلاحی ریاست کے خواب کے ساتھ کیا تعلق ہے ۔نہرو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا ولایت سے تعلیم حاصل کرکے آۓ کامیاب وکیل بنے ابو سے درخواست کی کہ وہ سیاست میں جانا چاہتا ہے ابو نے انکار کیا اس نے ضد کی تو اسی لمحے اس کے ابو نے اس کی ساری عیاشیاں اس سے چھینی خالی کمرے میں بان کی چارپاٸی چھوڑی دو وقت کی معمولی روٹی مہیا کی۔۔۔ بیٹا حیران تھا ہمت کرکے پوچھ ہی لیا کہ ابو یہ کیا ہو رہا ہے اس کے ابو نے کہا ۔۔۔بیٹا سیاست میں جانا چاہتے ہو نا ۔۔۔۔تو یہ سیاسی زندگی ہے یہ تمہارے ملک میں موجود اس غریب عوام کی زندگی ہے جس کی تم نماٸندگی کرنے جا رہےہو ۔۔خوب مشق کرو تاکہ ان کے دکھ درد محسوس کرو ۔یہی لوگ ریاست کے خواب کوشرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں ۔۔ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اس معیار سے محروم ہیں اگر ہم ڈیفالٹ کر جاٸیں تو ہمارے اشرافیہ کاکیا بگڑے گا ان کی روٹی پانی تو بند نہیں ہوگا ان کی دولت میں کمی تو نہیں آۓ گی ان کا دستر خوان اسی طرح ہفت خوان سے بھرا رہے گا ۔ان کو خواب ماب سے کوٸی تعلق نہیں وہ قربانی کے جذبے سے محروم ہیں ۔فلاحی ریاست کا خواب دیکھنے والے اور اس کی تعبیر کرنے والے اور لوگ ہوتے ہیں ۔لوگ عوام سے شکوہ کناں ہیں کہ ووٹ کی طاقت سے تبدیلی لاٶ ان کو کیسے بتاٸیں کہ چہرے نہیں بدلتے صرف مہرے بدلتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو منشور اور پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں جو آج رہبر ہیں وہ انہی کے بقول کل راہزن ہیں جو آج سچے کھرے ہیں وہی کل بدعنوان اور کرپٹ ہیں اب کس سے منصفی چاہیں اور خوابوں کی تعبیر کی توقع رکھیں ۔ہمارے اردگرد قومیں پنپ رہی ہیں۔ ملک ملک مضبوط ہو رہے ہیں ترقیاں ہورہی ہیں شناخت بناۓ جا رہے ہیں ہم روزبروز پیچھے جا ریےہیں یہ ہمارے کس خطا کی سزا ہے ۔۔جو قدرتی وساٸل ہمارے پاس ہیں کسی کے پاس نہیں۔ جو دولت رب نے ہمیں دی ہے کسی کے حصے میں نہیں آٸی بس ہم خوابوں میں زندہ ہیں خوابوں کی سرزمین میں سنہرے خوابوں کی توہین کر رہے ہیں ۔۔۔اللہ ہمارے حال پہ رحم فرماۓ

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔