عوام مزید بوجھ اٹھانے سےقاصر۔۔۔محمد شریف شکیب

ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ بجلی یا گیس کا ٹیرف بڑھانا آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل نہیں ہے حکومت نے ازخود بجلی اور گیس کے ٹیرف میں پچاس سے سو فیصد اضافہ کیا ہے حکومت کے پاس موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کیلئے آپشنز نظر نہیں آرہے شادی ہال اور مارکیٹیں شام کو بند کرنے اور گھڑی کی سوئیاں آگے پیچھے کرکے توانائی بچانے کے مصنوعی فیصلے سے کوئی قابل ذکر بچت ممکن نہیں۔ یہ اقدامات ڈوبتی کشتی میں بالٹی سے پانی نکالنے کے مترادف ہے۔ حکومت مشکل اقدامات سے سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے گریزکررہی ہے جس کے باعث آئی ایم ایف سے مذاکرات آگے بڑھنا مشکل ہورہا ہے۔ ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے کی وجہ سے تجارتی توازن بگڑ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں مہنگائی کی شدید لہر آنے کا خدشہ ہے۔گیس کے بڑھتے ہوءے گردشی قرضوں پر قابو پانے کیلئے گیس کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہوچکا ہے۔لیکن یہ اضافہ گھریلو صارفین کے بجائے ان لوگوں پر ڈالنا چاہئے جو اسے ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ آئی ایم ایف پاکستان کی برآمدات بڑھانے اور درآمدات کم کرنے کیلئے اقدامات کو سپورٹ کرنے کیلئے تیار ہے، آئی ایم ایف یہ بھی پوچھ رہا ہے کہ پی ڈی ایل پر نقصان ہورہا ہے تو پیسے کہاں سے پورے کریں گے، سیلاب متاثرین کو مدد دینی ہے تو اس کیلئے پیسے کہاں سے آئیں گے، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 5.6ارب ڈالرز ہیں، اگر آئی ایم ایف کے 1.2ارب ڈالرزپاکستان کو مل جاتے اورسعودی عرب بھی مالی سپورٹ پر رضا مند ہوتا تو زرمبادلہ کے ذخائر 10ارب ڈالرز ہوتے۔پاکستان کو 31ارب ڈالرز فنڈز کی ضرورت ہے یہ دوست ممالک کے رول اوورز،کمرشل فنڈنگ، بائی لیٹرل فنڈنگ اور ملٹی لیٹرل فنڈنگ سے مل کر آنے ہیں، یہ 31ارب ڈالرز کے فنڈز بھی آئی ایم ایف پروگرام بحالی کی صورت ہی ملیں گے،اگر آئی ایم ایف نے قرضے کی مطلوبہ قسط جاری نہیں کی تو پاکستان ڈالرز کی قلت کا شکار ہوسکتا ہے۔سیاسی قائدین بھی معاشی ماہرین سے اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کیلئے اس وقت نازک ترین لمحات ہیں، یوکرین جنگ، کورونا کے اثرات، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے ، گلوبل سلو ڈاؤن ، سیلاب متاثرین کی بحالی و آبادکاری ، معاشی و سیاسی عدم استحکام خطرات کی سطح کو مزید بڑھانے کا سبب بن سکتے ہیں۔حکومت ،اپوزیشن ، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، میڈیا اور ماہرین معاشیات کو مل کر ان حالات سے نکلنے کیلئے کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔حکومتی ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ رہنے کے لئے حکومت نے مشکل فیصلے کرنے کی ٹھان لی ہے ۔ان فیصلوں سے عوام پر مزید بوجھ پڑے گا جس سے حکومت کو سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے اس لئے مخلوط حکومت میں شامل بڑی جماعت مسلم لیگ کے اندر مشکل فیصلوں سے فی الوقت گریز کرنے اور ناپسندیدہ فیصلے اگلی حکومت پر چھوڑنے کی تجاویز سامنے آئی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کے اعلان سے بھی حکومت کو سپورٹ مل رہی ہے۔مگر حالات اس نہج پرپہنچ چکےہیں کہ سطحی اقدامات سے صورتحال میں بہتری کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ملک بچانے کے لئے بعض بنیادی فیصلے کرنے ہوں گے۔ زرعی آمدنی کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔ صنعت کاروں، بڑے تاجروں اور برآمدکنندگان پر بوجھ ڈالنا ہوگا۔ حکومتی سطح پر بچت مہم چلانی ہوگی جس کے تحت حکومتی ڈھانچے میں خاطر خواہ کمی کرنی ہوگی۔ قوم نے اب تک ملک کے لئے بہت زیادہ قربانی دی ہے۔ اب عام آدمی مزید قربانی دینے کی سکت نہیں رکھتا۔ اب متمول طبقے سے قربانی کا تقاضا کرنا ہوگا جس کے لئے حکمران خود کو رول ماڈل کے طور پر پیش کریں۔آج آٹآ ، گھی، کوکنگ آئل، سبزیاں،چینی، دالیں ، بجلی اور گیس کی قیمتیں عام آدمی کی قوت خرید سےباہر ہوچکی ہیں۔عوام مزید بوجھ کےمتحمل نہیں ہوسکتے۔اس لئے حکومت کو اپنے سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر قومی مفاد میں بڑے فیصلےکرنے ہوں گے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔