دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔”سوہنی دھرتی“۔۔۔محمد جاوید حیات

کبھی جہاز میں بیٹھ کر ملک خداداد کا جہاز کی کھڑکی سے نیچے نظارہ کر یں تو بڑا پیارا لگتا ہے ۔یہ کھیت کھلیان ،یہ باغ سبزہ زار ، یہ پہاڑ دریا ، یہ صحرا ریگستان ، یہ شہر کے شہر ، خوبصورت عمارتیں ، اونچے اونچے مینارے ۔۔۔۔انسان کو ان پہ جابجا پیار آتا ہے فخر محسوس ہوتا ہے کہ یہ سر زمین میری ہے ۔لیکن اس میں بسنے والے، اس پر حکومت کرنے والے،اس کے سیاہ وسفید کے مالک شاید کبھی یہ سوچتے نہیں ۔کہ اس سر زمین کا ان پر حق ہے یہ ان کی محنت ، خلوص ، جان فشانی اور دیانت داری سے ترقی کرتی ہے یہ ان کی ماں ہے یہ ان کی پہچان ہے ۔ان کے باشندوں کو فطری طور پر بھی اس سے محبت ہونی چاہیۓ ۔ابو جہل مکے کے ایک ٹیلے پہ بیٹھ کے اپنی بکریوں اور دوسرے حیوانات کو دیکھا کرتے جب وہ شام کو جنگل سے آتے بڑی رغونت سے اٹھتے چادر زمین کے ساتھ رینگتی جاتی دھول اٹھتی وہ اٹھلا کے اپنے گھر کی طرف جاتے اللہ کے پیغمبر کو جھٹلاتے لیکن اپنی دھرتی کو دنیا کی عظیم دھرتی کہتے اس کی حفاظت میں سر دھڑ کی بازی لگاتے ۔۔۔فخر موجودات ص مکہ سے ہجرت کر رہے تھے اندھیرے میں ثور کی پہاڑی پہ چڑھے مکہ کی طرف چہرہ مبارک کرکے کھڑے ہوگۓ فرمایا۔۔۔وادی مکہ تو دنیا کی سر زمینوں سے مجھے سب سے پیاری ہو مگر تیرے باشندے مجھے تیرے اوپر جینے نہیں دیتے ۔۔دنیا کے عظیم فاتحین کو اپنی سرزمین کی یاد ستاتی ۔ظہیرالدین محمد بابر بادشاہ ہندوستان تندور کی گرم روٹی اٹھاتے خوشبو آنکھیں بند کرکے سونھگتے اور کہتے” ہاۓ بوۓ نان وطن من“۔۔۔۔۔موزےتنگ نے اپنے ایک شعر میں کہا۔۔۔چین کی سر زمین کے ہر زرے میں میرا دل دھڑکتا ہے ۔۔شیگویرا سے پوچھا گیا کہ آخر ایسے باغی ہونے کی وجہ کیا ہے ؟ کہا وطن کے پھول کانٹے مجھے پکار رہے ہیں ۔دنیا کی تاریخ ایسے حسین جذبات سے پر ہے لیکن ہمارے ہاں یہ حب الوطنی کے جراثیم ناپید ہیں ۔ادھر وطن پکار رہا ہے ادھر وطن کا بیٹا اس کو چھوڑ کے بھاگے جا رہا ہے ۔جس خاک میں جنم لی ہے اسی مٹی نے اس کو جوان کیا ہے لیکن یہ مٹی اس کے لۓ اجنبی ہے ۔ اس کی پہلی ترجیح ملک چھوڑنا ہے اور بڑے فخر سے کہتا ہے ۔۔۔”پھر میں امریکہ میں سیٹل ہوگیا “ یہ سیٹل ہونا ہے کہ گھر بار چھوڑ کے بے گھر ہونا ہے ۔۔اگر روزگار کی تلاش ہے تو پھر اس مٹی سے نالان کیوں ؟ ۔اگر دھن دولت کی آرزو ہےتوپھر اس خاک کو نوچناکیوں ؟ ۔۔اس میں کس چیز کی کمی ہے دنیا والے اس کے جعرافیہ پہ مرتے ہیں ۔اس کی خوبصورتی کی مثالیں دیتے ہیں ۔روسی برف کی تہوں میں جی رہے ہیں چین ،منگولیا، کوریہ سیم تھور میں لت پت ہیں جاپان ملایشیا زلزلے کی زد میں ہیں ۔۔برطانیہ میں دھوپ کی آرزو ستاتی ہے عرب ممالک کو صاف پانی کی آرزو ہے مگر ہم ہیں کہ اس جنت نظیر کوچھوڑ کر بھاگ رہے ہیں ۔آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم روٹی کے نوالے کو ترس رہے ہیں ۔قصور سرزمین کا نہیں ہے ہم نا اہلوں کا ہے ہم سوہنی دھرتی سنبھال نہیں سکتے ۔یہ دھرتی زرعی ہے ہم پہلے غلہ آٹا چوری چھپے دوسرے ملک پہنچاتے ہیں اور پھر دوسروں سے خرید کے لاتے ہیں ۔اس دھرتی میں ہر قسم کے پھل میواجات اور سبزیاں پیدا ہوتے ہیں مگر ہم ٹماٹر دوسروں سے خریدتے ہیں ۔یہ دریاٶں کی سرزمین ہے مگر ہمارے ہاں بجلی نہیں ۔۔ہم ایسے نا اہل ہیں کہ اگر دوسرے لوگ یہاں آکر سرمایہ کاری کرنا چاہیں تو انکی نہ جان محفوظ ہے نہ مال ۔۔وہ کرپشن کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں ۔ہمارا دشمن کہتا ہے کہ ہم نے انہیں کشکول اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے ۔سچ کہتا ہے ۔ہمیں دھرتی ملی ہے غیرت نہیں ملی ۔ہمیں صلاحیت ملی ہے صداقت نہیں ملی ۔ہمیں زندگی ملی ہے شعور نہیں ملا اس لۓ سوہنی دھرتی ہمارے ہاتھوں بے وقعت ہے ۔اگر یہ زندہ قوموں کے پاس ہوتی تو اس کی قدر ہوتی ۔یہ چڑیا کا گھر کہلاتی تھی ۔یہ قدرت کے خزانوں کا مرکز کہلاتی تھی مگر اس کی حفاظت کون کرے اس کی قدر کون کرے اس پہ فخر کون کرے ۔خود اپنے کہتے ہیں کہ اگر بڑوں کی عیاشیاں بند ہوجاٸیں تو ملک خود بخود ترقی کرے گا مگر عیاشی بند کرنے کی جرات کوٸی نہیں کرتا ۔بندہ خود اپنی گاڑی استعمال کرنے سے انکار کرے کہ میں قومی خزانے پر بوجھ نہیں بنوں گا ۔اپنا پروٹوکول بند کرے اپنی مراعات کم کرے اپنی تنخواہ کے علاوہ اور کوٸی زریعہ آمدن استعمال نہ کرے قومی خزانے کو امانت سمجھے اس کو روکتا کون ہے؟۔۔ایک وزیر باتدبیر کہے میں آج اپنی ذاتی گاڑی میں یا ٹیکسی میں دفتر آٶنگااور آ کے دیکھاۓ ۔ ایک ٹھیکہ دار امانتداری سے کام کرے ایک انجٸنیر کمشن نہ لے ایک ڈاکٹر کلینک میں فیس کم لے ایک استاد ٹیوشن فیس میں کمی کرے ۔ایک کارخانہ دار دو نمبر کی پیداوار مارکیٹ میں نہ لاۓ۔۔۔ روکتا کون ہے ۔۔یہ اس دھرتی سے عقیدت ہے ۔۔یہ فکر آخرت ہے تب ہمیں حق پہنچتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس سوہنی دھرتی کا باشندہ کہیں۔۔۔۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔