ثقافتی شو یا ڈانس شو۔۔۔تحریر: شہاب ثنا برغوزی۔۔
“ثقافت ہر قوم کی ایک الگ پہچان کا کردار ادا کرتی ہےاور ہر خطہ کا اہم حصہ ہوتی ہے اور نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔کسی بھی قوم کی ثقافت میں بہت سے عوامل شامل ہوتے ہیں اس میں طرز زندگی ،زبان ،اداب ،رسم و رواج ،نظریہ حیات عمارت سازی اور بہت کچھ شامل ہیں ۔ثقافت کے یہ تمام پہلو اور عنصر قوم کے ماضی اور حال کا عکس ہوتا ہے جغرافیائی حالات اور ماحول کا بھی قوم کی ثقافت پر گہرا اثر پڑتا ہے زبان اور ثقافت ایک علاقے اور قوم کی مشترکہ پہچان ہوتی ہے ایک قوم اس وقت تک قوم نہیں کہلاتی جب تک اس کی زبان اور ثقافت دوسری قوم سے الگ نہ ہوں ایک قوم مخصوص جغرافیاء کے اندر رہ کر مخصوص طور طریقے ،اٹھنے بیٹھنے ،رہن سہن ،کھانے پینے اور اپنی الگ سوچ کی وجہ سے دوسری قوموں سے الگ ہوتی ہے اس لیے یہ مختلف انداز اور فکر اس قوم کی ثقافت کہلاتی ہے ۔۔
اب اگر ہم ثقافت کو اتنے وسیع معنوں میں لے لیں تو ثقافت پوری زندگی کا محور ہوتی ہے اس کے اندر پوری زندگی سمائی ہوئی ہوتی ہے چترال کے باشندے اگر مختلف ادوار میں مختلف علاقوں سے یہاں آئے لیکن جو بھی آیا اس مخصوص کلچر کو اپنایا اور اس میں رچ بس گیا ۔۔لازم ہے جب ادوار بدلتے ہیں تو اقدار بھی بدل جاتے ہیں ۔۔اج چترال ایک تعلیم یافتہ چترال بن رہا ہے لیکن وہ تہذیب یافتہ چترال آہستہ آہستہ معدوم ہوتا جا رہا ہے ہم تعلیم یافتہ ہونے کے نام پر ،بیدار ہونے کے نام پر اپنی تہذیب کو خود اپنی ہاتھوں سے ذبح کر رہے ہیں ۔۔کسی زمانے میں چترالی عورت اپنی ایک الگ پہچان رکھتی تھی اج وہ۔۔۔۔وہ پہچان کھو رہی ہے کسی زمانے میں پردہ ،برقعہ ،چادر اور ڈوپٹہ اس کی پہچان تھی اج یہ ان کو اتار پھینک رہی ہے عضب خدا کی گائیکی اور رقص کا کر رہی ہے اور اس کے لیے سینکڑوں دلائل دے کر ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ اس کا حق ہے ۔اس میں ہمارے بھائی اور باپ لوگ بھی شامل ہیں جو اس کلچر کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اج کل مختلف ڈیز کے نام پر جو تہوار منائے جا رہے ہیں یہ ایک سوچے سمجھے سازش لگتی ہے کہ چترالی عورت کو چند نام نہاد ،روش خیال بے ظمیر قسم کے لوگ میدان میں لا رہے ہیں اس کی حیا پر بدنما داغ لگا رہے ہیں یہ مخصوص خواتین مختلف محکموں ،اداروں اور میدانوں میں اس طرح آورگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں کہ چترالی عورت کی پہچان مٹ رہی ہے آج چترالی عورت کو ایک غیرت مند مرد بہن ،بیٹی ،ماں کہتے ہوئے ہچکچاتا ہے اس کو تعلیمی اداروں میں چھوڑ کر لرزجاتا ہے اس کو نصیحت کرکے زبان گنگ ہو جاتی ہے ۔یہ عورتیں کون ہیں کہاں سے آئے ہیں ؟ہماری ثقافت میں کبھی غیر محرم مرد عورت ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتے نہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ چترالی ثقافت۔۔۔تو یہ کون ہیں ٹائیٹ پاجامہ اور ننگے سر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر دھول کی ساز پر رقص کر رہے ہیں یہ نہ کبھی چترالی ثقافت کا حصہ تھی اور نہ ہے۔۔ یہ کون ہیں جو بے حیائی کے نام پر چترال کو پروموٹ کر رہی ہیں ؟؟ فحاشی ،عریانی، بے حیائی اور بے پردگی کبھی کسی چترالی کی ثقافت نہیں رہی نہ اس کی شناخت ہیں۔۔
خدارا چترالی قوم کی پہچان ناچ گانا نہیں اس کی تابناک ماضی،بہادر شخصیات،مہذب رسم و رواج،تعلیمی ورثہ ،جنگیں ،پردہ،چادر ،برقعہ شرم و حیاء ،مہمان نوازی اور امن پسندانہ سوچ اس کی پہچان ہے ۔۔ہم چترالی بیٹیاں ،بہنیں اس بے پردہ اور بے شرم حرکات کی بھر پور مذمت کرتی ہیں ۔۔بے ہودہ پروگرام کرکے اپنی خواہش پوری کرنے والے چترال کی خوبصورت ثقافت کو بدنام کرنے والوں سے یہی کہنا چاہتی ہوں خدارا چترالی بیٹیوں ،بہنوں ، ماؤں کا یوں تماشا مت بناؤ۔ کہ کوئی ان پر چترالی کلچرل ڈے کے حوالے سے طعنہ دے۔۔بہت عزت سے اپنے چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہتی ہیں چترال کی باپردہ بیٹیاں۔۔
۔۔۔۔۔۔خیال اپنا اپنا۔۔اختلاف کی اجازت ہے۔۔۔