حقدار کا آئینی حق…محمد شریف شکیب
بالاخر ارباب اختیار و اقتدار کو چترال کے عوام کو درپیش مشکلات کم کرنے کا خیال آ گیا۔تحریک تحفظ حقوق چترال کی عوامی حقوق کے لئے احتجاجی مظاہرے ثمربار ثابت ہونے لگے۔تحریک کے کارکن گذشتہ دو ہفتوں سے پشاور اور اسلام آباد پریس کلب کے باہر دھرنا دئیے بیٹھے۔ان کے مطالبات میں چترال میں پیدا ہونے والی بجلی سے دونوں اضلاع کو تیس میگاواٹ بجلی کی فراہمی، اکھڑی ہوئی سڑکوں کی فوری تعمیر، معدنی ذخائر کی بندربانٹ روکنا اور چترال کے عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی شامل ہیں۔علاقے کا درد رکھنے والے چند افراد نے انفرادی طور پر بھی عوامی حقوق کے لئے کوششیں کیں اور اپنی مٹی کا قرض ادا کیا۔ چترال کو بجلی کی فراہمی کا مسئلہ سیاسی نہیں، بلکہ پیڈو اور پیسکو کے درمیان مالی تنازعے کا شاخسانہ تھا۔اب بجلی کی تقسیم کار دونوں سرکاری اداروں کے درمیان معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت مالی معاملات طے کرنے کے لئے کمیٹی قائم کی جائے گی جو ایک ماہ کے اندر اپنی سفارشات پیش کرے گی۔یہ بھی طے پایا کہ پیڈو اپنے دائرہ اختیار کے علاقے میں بجلی کی وہی قیمت مقرر کرے گی جو پیسکو کے صارفین پر لاگو ہے۔ یعنی سو یونٹ تک بجلی خرچ کرنے پر قیمت اٹھارہ روپے، دو سو یونٹ کے بائیس، تین سو یونٹ کے اٹھائیس اور تین سو سے زیادہ یونٹ بجلی خرچ کرنے پر پنتیس روپے فی یونٹ بل وصول کئے جائیں گے۔جبکہ کمرشل استعمال کی قیمت بھی وہی وصول کی جائے گی جو مردان، چارسدہ، کوہاٹ، ڈیرہ اور پشاور کے صارفین سے وصول کی جاتی ہے۔ملک کے آئین اور قانون کے تحت جس علاقے میں پیدا ہونے والی بجلی، گیس، تیل ،عمارتی لکڑی، معدنیات اور زرعی دوسرے علاقوں کو سپلائی کی جائیں گی۔پیداواری علاقے کو اس پر رائیلٹی ملے گی۔مگر چترال کو بجلی، عمارتی لکڑی، معدنیات اور آبی وسائل کی کوئی رائیلٹی نہیں ملتی۔چترال میں گولین گول پراجیکٹ سے 108 اور ریشن پاور ہاوس سے اڑھائی میگاواٹ جبکہ چترال پاور ہاوس سے ایک میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔یہ ساری بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کی گئی ہے۔چترال کے دونوں اضلاع کی مجموعی ضرورت بائیس میگاواٹ ہے حکومت اور واپڈا نے چترال کی بجلی سے تیس میگاواٹ مقامی ضروریات کے لئے مختص کرنے کا وعدہ کیا تھامگر چترال کو دس میگاواٹ بجلی بھی نہیں دی جا رہی۔ اپر چترال کو گذشتہ چھ سالوں سے چوبیس گھنٹوں میں صرف چار گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی رہی ہے۔ریشن پاور ہاوس سیلاب برد ہونے کے بعد اپر چترال تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔پیڈو اور پیسکو کے درمیان معاہدے کے بعد اپر اور لوئر چترال کو یکم فروری سے بجلی کی فراہمی میں بہتری کی توقع ہے۔یہ چترال کے عوام کا بنیادی حق ہے۔کسی نے عوام پر کوئی احسان نہیں کیا۔جن لوگوں اور اداروں نے کئی سال تک عوام کو بجلی جیسی بنیادی سہولت سے محروم رکھا وہ قوم کے مجرم ہیں۔تحریک تحفظ حقوق چترال کو اپنے قانونی مطالبات کی فہرست میں دریائے چترال کی رائیلٹی کو بھی شامل کرنا چاہئے جس سے گذشتہ 76 سالوں سے چترال کو محروم رکھا گیا ہے۔