چہرے نہیں، نظام کو بدلو۔۔۔محمد شریف شکیب
حکومت نے ہٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں مین 35روپے فی لیٹر اضافہ کیاہے.نئے اضافے کے بعد پٹرول ڈھائی سو روپے لیٹر ہوگیا ہے۔ وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل مہنگا ہونے کے باوجود گذشتہ چار مہینوں سے قیمتوں میں اضافہ نہیں کیاگیا تھا اور اب یہ اضافہ ناگزیر ہوچکا تھا۔ اس سے قبل وزیرخزانہ کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ ملک کو سیاسی اور معاشی بحرانوں سے اللہ تعالی ہی ہمیں نکال سکتا ہے۔ اسحاق ڈار کا یہ بیان اس حقیقت کا مظہر ہے کہ حکومت معاشی و سیاسی معاملات کو سدھارنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ یہی موقف حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور وفاق میں اس کی اتحادی پارٹیوں کے مرکزی قائدین نے پشاور میں مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی اپنایا ہے کہ موجودہ نظام میں بحران کو ٹالنا اور عوام کو ریلیف فراہم کرنا ممکن نہیں ہے۔سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ،خواجہ محمد ہوتی ، مفتاح اسماعیل، مصطفی کھوکھر اور علی احمد کرد کا مشترکہ پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاست نفرت اور دشمنی میں تبدیل ہوگیے ہے۔عوام کی بجائے کرسی کی جنگ لڑی جارہی ہے۔آئین ملک کو وہ نظام نہیں دے سکا جو عوام کے مسائل اور پریشانی دور کرسکے۔آج عوام کو درپیش مسائل حکمرانوں کی ناکامی کے ثبوت ہیں ملک کے مسائل کو حل کرنا اس نظام میں ممکن نہیں۔معیشت اور سیاسی نظام میں درپیش پیچیدگیاں پہلے پاکستان میں اس طرح نہیں تھیں۔ان کا کہناتھا کہ ارباب اختیارکو جگانے کی ضرورت ہے،ایک دوسرے پر الزام لگانے کی بجائے عوام کو درپیش مسائل کے حل کرنا چاہیے۔ملک اور سیاست سے متعلق کے فیصلے بند کمروں کےبجائے منتخب عوامی نمائندوں کے ذریعے ہونے چاہیئں سانحہ اے پی ایس کے بعد 2014 میں ملک کی سیاسی قیادت نے مل بیٹھ کر نیشنل سیکورٹی پلان تشکیل دیا تھا جس سے قوم کو دہشت گردی سےنجات دلانے میں مدد ملی۔ اس وقت ملک کو سیاسی اور معاشی بحران سےنکالنے کے لئے بھی تمام سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قومی پالیسی وضع کرنی ہوگی۔یہ امر خوش آئند ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت نے بھی قوم کو درپیش مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کردیا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے دوسرے نازک ترین دور سے گذر رہا ہے۔ جوہری صلاحیت رکھنے والے ملک کو معاشی تباہی کے دہانے تک پہنچانے کے اقتدار کی غلام گردشوں میں موجود تمام لوگ ذمہ دار ہیں۔ قوم کے نام پر بیرونی ممالک اور مالیاتی اداروں سے ناقابل قبول شرائط پر قرضے لئے جاتے رہے اور ان قرضوں کی اقساط سود سمیت عوام سے بھاری ٹیکسوں کی صورت مین وصول کی جارہی ہیں۔اب مہنگائی اور بے روزگاری اس قدر زیادہ ہوگئی کہ عوام بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے اور روزمرہ ضروریات پوری کرنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے۔ملکی مسائل میں اضافے کا سبب آئین کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔کیونکہ آئیں پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کبھی نہیں ہوا۔ انصاف کا نظام بھی فرسودہ اور ناقابل عمل ہے۔ یہاں بااثر لوگوں اور غریبوں کے لئےالگ الگ قوانین ہیں بااثر لوگ اور قانون نافذ کرنے والے خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ظلم، زیادتی، ناانصافی ، جبر اور استحصال پر مبنی یہ نظام مزید نہیں چل سکتا۔ وقت آگیا ہے کہ تمام محب وطن قوتیں ملک اور جمہوریتکو بچانے کے لئے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اور سر جوڑ کر بیٹھیں اور کوئی ایسا نظام وضع کریں کہ ہم بھیک پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے باعزت زندگی گذارسکیں اور قوموں کی برادری میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرسکیں۔