دھڑکنوں کی زبان۔۔۔”اے شہر پشاور تو خون الود کیوں؟“۔۔محمد جاوید حیات
دور کابل، افعانستان، تاجکستان ایران سے تجارتی کاروان راستے کی دھول اوڑھے تیری سرحد پہ جب داخل ہوتے تو ایک امن اور سکون کی ہوا ان کے جگر کو ٹھنڈک بخشتی ۔شہر کے دروازوں سے اندر داخل ہوتے ہی رات کے ساۓ پڑتے۔۔ دروازے بند ہوتے ۔۔۔شہر کے وسط میں سراۓ کھلے رہتے۔۔ کھانے کے بعد روایتی قھوا پکاٸی جاتی مسافر دور شہروں ،ملکوں اور دنیاٶں کے قصے لے کے بیٹھتے۔۔۔ سناتے رہتے۔فضا پر سکون ہوتی۔۔ رہ رہ کے کہتے ” اس شہر کی طرح پرسکوں “قصہ گو اس پر امن شہر (پشاور)کی مثالیں دیتے ۔اس سکون کی یادگارقصہ خوانی بازارموجود ہے ۔شہر کے محلوں میں محبت کی فضا ہوتی… گلی کوچے شرافت سے بھر پور ہوتے ۔باشندوں کو کسی چیز کا خوف نہ ہوتا ۔صبح کی اذان کے ساتھ پورا شہر جاگتا ۔جب اسلام نہیں آیا تھا تب بھی اس کے غیر مسلم بادشاہوں کے انصاف کےقصے موجود ہیں یہ کبھی” پراشپورا “کبھی ”پراشپور “ ہوا کرتا کبھی ”کنشک“ یہاں پر انصاف کا چراغ جلاتا ۔۔کبھی مغل اس کے وسط میں ٹیلے بنابنا کے قلعے بناتے۔۔ کبھی تینوں بیٹےاپنی اپنی جاٸیدادوں سےمسجدیں بناتے۔۔ کبھی ایک خاتون ہسپتال کی بنیاد رکھتی کبھی انگریزوں کے نام پہ پارک بنتے لیکن پشاور ان حسین اور پر امن روایتوں کا امین ہے کہ زمانے کے ستاۓ ہوۓ یہاں آکر سکون کی نیند سو جاتے ۔شہر پشاور ہماری ماں دھرتی تھا۔ ہمارا مسکن ، مامن اور ٹھکانہ ۔۔۔لیکن زمانے کے انداز کیسے بدلے کہ اس کو بار بار خون میں نہلایا جاتا ہے پوری دنیا پر سکون ہوتی ہے مگر یہاں سےامن اور سکون کی ردا کھینچی جاتی یے سرکاٸی جاتی ہے ۔یہاں کی فضاٶں میں خوف اور دہشت کا دھواں چھوڑا جاتا ہے۔یہاں کے محافظوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتایے یہاں کے بچوں کو کچلا جاتا ہے یہاں کے سب سے محفوظ مقامات پہ اگ جھونکا جاتا ہے ۔۔لیکن پھر بھی پشاور ایسے باسیوں کا مسکن ہے کہ جنہوں نے کبھی موت کو دہشت نہیں سمجھا ۔عصر کے وقت ایک مسجد میں دھماکا ہوتا ہے مغرب کی نماز کے لۓ نمازی وہاں پر پھر سے جمع ہوتے ہیں دہشت نے ان سے ان کی زندگی چھینی ہے مگرغیرت نہیں چھینی۔۔ حوصلہ نہیں چھینا ۔۔روم کے جنرل نے خالد بن ولید رض کو مکتوب لکھا ۔۔” تم سیسمار (صحراٸی چپکلیاں)کھانے والے روم کی شاہی فوج کی طرف بڑھ رہے ہو“ خالد بن ولید رض نے اس کے جواب میں لکھا ۔” سپہ سالار تمہاری طرف عرب کے وہ شہسوار بڑھ رہے ہیں جنہیں موت سے اتنی ہی محبت ہے جتنی تمہیں زندگی سے ہے “ مسلمان کا ایمان ہے کہ موت برحق ہے زندگی کا دوسرا حصہ موت ہے اس سخت جان قوم کو موت سے کوٸی خوف نہیں لیکن ان کی زندگیوں کو بے سکون کرنے والے کیا چاہتے ہیں ان کے گھروں کی شمعیں بجھانے والے، ان کو یتیم اور بے سہارا کرنے والے ،ان کی سہاگ لٹنے والے کیا چاہتے ہیں؟۔ کیا یہ غیرت کی کوٸی قسم ہے، انتقام کا کوٸی انداز ہے ،بہادری کی کوٸی مثال ہے، جنت کی کوٸی سرٹیفیکیٹ ہے آخر کیا ہے؟۔قوم دشمن کے ساتھ لڑتی ہے اپنے آپ سے تو نہیں لڑسکتی۔ زندگی کی حفاظت ہو سکتی ہے موت کی تو نہیں ہوسکتی ۔اللہ کی زمین پر خون خراب سب سے گھناٶنا جرم ہے ۔پشاور پر کم از کم 500بار یہ ظلم ہوا ۔بارود کی بد بو سے اسے الودہ کیا گیا ۔آج ان قصہ سنانے والوں کی روحیں بھی تڑپ اٹھتی ہونگی۔۔ آج امن کی وہ تاریخ شرمندہ ہےآج روایات کی وہ داستانیں دہاٸی دے رہی ہیں کہ یہ شہر لہو لہو کیوں ہوتا ہے آگ خون اور جنون کے گھناٶنے کھیل کے لۓ اس کو کیوں چناجاتا یے؟ ۔ کاش ہمیں ان کے اسباب کا پتا چلتا ۔کاش ان عزاٸم کے پیچھے والی کہانی کا پتہ ہوتا ۔ہم اپنے ارباباں اقتدار و اختیار سے جان کی امان چاہتے ہیں اورروایتی امن کی وہ دولت جو ان کے ہوتے ہوۓ کسی کے ہاتھوں تباہ ہورہا ہے ہمیں واپس دلاٸی جاۓ۔ہم اپنی گلیوں میں بے خوف چہکتے بچے چاہتے ہیں ہم اپنے دفتروں میں اپنی نشستوں پہ بیٹھے ہنستا مسکراتا عملہ چاہتے ہیں ہم اپنے بازاروں میں رونق چاہتے ہیں ہم اپنی عبادت گاہوں میں عافیت کی دولت چاہتے ہیں ۔ہم ہجوم چاہتے ہیں محبت سے بھر پور ہجوم ۔۔ہم اپنے بچوں کو ڈرانا نہیں چاہتے کہ وہ اداروں ،بازاروں اور گلی کوچوں میں محفوظ نہیں ۔ ہم اپنی ماٶں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو کچھ نہیں ہوگا ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری صبحیں افسردہ اور شامیں خون الود نہ ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے انگن شہنایوں سے گونج اٹھیں ۔ پشاور کا حالیہ دھماکا ایک سوالیہ نشان ہے کہ جان و مال کے محافظ خود اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔گھر اجھڑ جاتے ہیں ۔۔ہم صرف اللہ کے حضور گڑگڑا سکتے ہیں چیخ چیخ کراپنی ناشکریوں کی معافی چاہتے ہیں ۔مدد چاہتے ہیں کہ اس ازماٸش سے ازاد کیا جاۓ ۔ہمارا رب بڑا کریم و رحیم ہے ۔۔اگر ہم ہجوم بن گۓ ہیں تو پھر ہمیں قوم میں تبدیل کر دے ۔۔۔