خداترس قیادت کی ضرورت…محمد شریف شکیب

وطن عزیز کے سیاست دان، معیشت دان، کاروباری حضرات اور تجزیہ کار مسلسل اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ملک خدانخواستہ دیوالیہ ہونے کے قریب ہے اگر آئی ایم ایف سے ڈیڑھ ارب ڈالر کا قرضہ مل بھی جائے تو ان کی ناگوار شرائط قبول کرنے اور ان کے نفاذ کے بعد ہی مل سکتی ہے ایسی صورت میں مہنگائی کا ایک سونامی برپا ہو سکتا ہے۔اگر کسی وجہ سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ قرضہ نہیں دیتا تو زر مبادلہ کے ذخائر ختم ہو جائیں گے اور ہم بیرونی قرضوں کی قسطیں اور تجارتی سامان کے کرایے ادا کرنے سے قاصر ہوں گے کراچی کی بندرگاہ پر سامان سے بھرے ہزاروں کنٹینرز پڑے ہیں۔انہیں کرایے کی مد میں ڈالروں میں ادائیگی کرنی پڑتی ہے اور کمرشل بینک ڈالر ایشو نہیں کر رہے۔سوشل میڈیا پر ملکی آمدن کے حوالے سے ایک قابل غور پوسٹ دیکھ کر مناسب سمجھا کہ اپنے قارئین کے ساتھ بھی شیئر کروں۔ آپ اگر موٹر وے پر اسلام آباد کی طرف سے لاھور جائیں تو ٹول پلازہ پر ایک درجن سے زیادہ بوتھ ہیں ، ہر بوتھ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک منٹ میں چھ گاڑیاں گذرتی ہیں ،اور یہی ایک بوتھ ایک گھنٹے میں 360 گاڑیوں کی گذر گاہ ھے ،، اسی طرح بارہ عدد بوتھ سے 4320 گاڑیاں ایک گھنٹے میں گذرتی ہیں اور چوبیس گھنٹوں میں 103680 گاڑیاں گذرتی ہیں ، اسلام آباد سے لاھور تک ایک کار کا ٹیکس 1000 ہزار روپے ہے۔ بڑی گاڑیوں سے چار پانچ ہزار تک ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ایک گاڑی کا ٹیکس صرف 1000 ہزار بھی لگائیں ، تو اس حساب سے 24 گھنٹوں میں یہ پلازہ کم از کم ساڑھے دس کروڑ روپے پیدا کرتا ھے ، ملک بھر کے موٹر ویز اور ہائی ویز پر ان ٹول پلازوں کی تعداد گن لیں اور پھر ان کو کروڑوں سے ضرب دیں تو صرف ٹول ٹیکس کی مد میں روزانہ کے حساب سے اربوں روپے حکومت کے خزانے میں جمع ھو جاتے ہیں ۔آپ جس گاڑی میں سفر کر رہے ہیں ، اس میں پٹرول کی مد میں کم از کم ایک لٹر پر پچاس روپے ٹیکس کاٹا جا رہا ھے ، روزانہ لاکھوں گیلن کے حساب سے جو پٹرول ڈیزل خرچ ھو رہا ھے ، اس کے ٹیکس کی مد میں روزانہ اربوں روپے قومی خزانے میں جمع ہو رہے ہیں۔
جب آپ گاڑی خریدتے ہیں تو جتنی گاڑی کی قیمت ھوتی ھے ، اتنا ہی اس پر سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی بھرنی پڑتی ھے ۔آپ جس گاڑی کو اپنے پاس رکھتے ہیں اس کی سالانہ ایکسائز ڈیوٹی بھی اربوں میں جمع ھوتی ھے ۔آپ کی بجلی کا بل اگر دس ہزار روپے ہے ،تو اصل بجلی کی قیمت تین ہزار نکال کر بقایا سات ہزار روپے ٹیکس ھے ،جو ماہانہ ہرصارف سے کاٹا جاتا ھے اور اربوں کے حساب سے حکومت کے خزانے میں جمع ھوتا ھے ۔ گیس کے بل پر بھی اسی شرح سے ٹیکس لگ رہا ھے ،اور خزانے میں جمع ھو رہا ھے ۔آپ ایک میڈیکل سٹور سے تین سو روپے کی دوائی خریدتے ہیں۔اس پر تقریبآ چالیس سے پچاس روپے تک سیلز ٹیکس لگتاھے۔آپ ھوٹل میں کھانا کھا رہے ہیں اور آپ کا پانچ ہزار بل آگیا ھے ، تو اس پر تقریبآ پانچ سو کے قریب آپ سے ٹیکس کاٹا جاتا ہے۔آپ اپنے مکان کا نقشہ پاس کروا رہے ہیں ، اور آپ کسی بھی ڈویلپمنٹ ادارے کے دفتر جائیں ،تو لوگوں کی قطاریں لگیں ھوئی ھونگی ، جن سے چالیس سے پچاس ہزار روپے فی نقشہ فیس وصول کی جاتی ہے۔ یہ بھی خزانے میں جمع ھوتا ھے ۔آپ جس گھر میں رہ رہے ہیں۔ اس گھر کا سالانہ ٹیکس آپ نے خزانے میں الگ سے جمع کروانا ھوتاہے۔آپ گھر کے لئے سامان اور اشیائے خوردونوش خرید رہے ہیں۔اس پر بھی آپ نے ٹیکس دینا ھوتا ہے۔آپ پڑھ رہے ہیں ،اور اپنے لئے کتابیں کاپیاں اور سٹیشنری خرید رہے ہیں ،اس پر بھی آپ ٹیکس دے رہے ہیں ۔آپ کسی سیاحتی مقام کی سیر کو جاتے ہیں تو کئی جگہوں پر ناکے لگے ھوتے ہیں ،اور ٹی ایم اے کے نام پر آپ سے ٹیکس لیا جاتا ھے ۔آپ بنک میں اپنے پیسے جمع کراتے ہیں یا نکالتے ہیں ، اس پر آپ نے ٹیکس دینا ھوتا ہےاور آپ جتنی مرتبہ بھی ایک ہی رقم نکالتے اور جمع کرتے رہیں گے ،اپ اس پر ٹیکس دیتے رہیں گے ۔جب آپ مر جاتے ہیں تو آپ کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوانے کے لئے بھی آپ کے عزیز و اقارب کوٹیکس دینا پڑتا ہے کر سرٹیفیکیٹ لینا پڑے گا۔ حکومت کے پاس ایسے بے شمار اثاثے ہیں ،جن سے اربوں روپے حکومت کے خزانے میں جا رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ھے کہ جس ملک میں اربوں کھربوں کے ٹیکس روزانہ کے حساب سے خزانے میں جمع ہو رہے ہیں۔وہ کیوں مفلوک الحال ھے ، اور دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوا ہے۔اس حوالے سے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں سے حساب لینا ہوگا ملک کے ہر محب وطن شہری کواٹھنا ھوگا۔قوم کی یہ ساری دولت چند لاکھ لوگوں کے اکاونٹس اور جیبوں میں جاتی ہے۔اب آئی ایم ایف نے اعلی سرکاری حکام کی تنخواہوں، مراعات اور سہولیات کی تفصیلات طلب کی ہیں۔اگر ملک کے متمول اور با اثر لوگوں اور حکمرانوں کی مفت بجلی، گیس، پٹرول اور دیگرمراعات ختم کی جائیں تو ملک دیوالیہ ہونے سے بھی بچ سکتا ہے اور اگلے دس سالوں میں ہر شعبے میں خود کفالت کی منزل حاصل کرسکتا ہے۔بشرطیکہ اس ستم رسیدہ قوم کو کوئی خدا ترس، دیانت دار اور محب وطن قیادت دستیاب ہو۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔