زمانہ بلاشبہ مقدس ہے…محمد شریف شکیب

سکندر اعظم نے اپنے اتالیق کو ایک انگوٹھی دیتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی ایسا جملہ کندہ کرواو۔اگر میں غم کی کیفیت میں اسے دیکھوں تو غم کی شدت کم ہو اگر خوشی سے سرشار ہو کر دیکھوں تو اپنی اوقات میں واپس آئوں۔ سکندر کے اتالیق نے انگوٹھی پر یہ جملہ کندہ کروایا کہ “یہ وقت بھی گزر جائے گا” بیشک وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ وقت کی اس تغیر پذیر کیفیت کو ہی زمانہ کہا جاتا ہے۔جب ہمارے حالات موافق ہوں تو ہم اسے اچھے وقت کے طور پر یاد کرتے ہیں اگر غم و اندوہ اور پریشانی کی کیفیت سے دوچار ہوجائیں تو وقت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔وقت بذات خود اچھا یا برا نہیں ہوتا۔انسان اپنی ذاتی حالت، سوچ اور کیفیت کے مطابق وقت کو اچھا یا برا خیال کرتا ہے وقت دنیا کی سب سے قیمتی شئے ہے وہ جب تک ہاتھ میں ہے بہت کم ہی لوگ اس کی قدر کرتے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔اکثر لوگ وقت گذرنے کے بعد کف افسوس ملتے رہ جاتے ہیں۔وقت کو دن اور رات میں تقسیم کیاگیا ہے اور اس کے مختلف پہر متعین کئے گئے ہیں۔دن کے اوقات کو تین پہروں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلا پہر صبح روشنی پھیلنے سےبارہ بجے تک ہے۔دوسرا پہر بارہ بجے سے تین بجے تک ہے جسے دوپہر کہتے ہیں جبکہ تین بجے سے سورج ڈھلنے کی مدت کو سہ پہر کہا جاتا ہے۔طلوع سحر سے غروب آفتاب کو دن اور غروب آفتاب سے سحر تک کے عرصے کو رات کہا جاتا ہے۔ا نگریزی کیلنڈر میں دن کا آغاز رات بارہ بجے سے ہوتا ہے۔رات بارہ سے دن بارہ بجے تک کے وقت کو اے ایم (اینٹی مریڈیم) اور دن بارہ سے رات بارہ بجے کے وقت کو پی ایم( پوسٹ مریڈیم) پکارا جاتا۔یہ اوقات آج سے ایک ہزار سال قبل لاطینیوں نے مقرر کئے تھے جو آج تک چل رہے ہیں۔وقت ایک بہت بڑا موضوع ہے، سائنس میں اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ہمارے دنوں کا انحصار گھڑیوں کی سوئیوں پر ہوتا ہے، یعنی ابھی کیا وقت ہوا ہے، کس وقت کیا کرنا ہےسوال یہ ہے کہ آخر نئے دن کا آغاز رات 12 بجے (گریگورین یا جولین کیلنڈر کے مطابق) کیوں ہوتا ہے؟اس کا جواب سادہ نہیں بلکہ کافی الجھا ہوا ہے مگر یہ واضح ہے کہ ایسا قدیم روم کی مہربانی سے ہوا۔قدیم مصر میں دن کو 24 حصوں یا گھنٹوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور وقت کا تعین کرنے کے لیے آسمان پر سورج کی پوزیشن کو مدنظر رکھا جاتا تھا۔اس سسٹم کو اب سن ڈائل کا نام دیا گیا ہے اور چونکہ رات کو سن ڈائل سسٹم کام نہیں کرسکتا تھا تو یہ ضروری تھا کہ دوپہر اور آدھی رات کا تعین ہو تو اس کے لیے اے ایم پی ایم جیسی اصطلاحات استعمال ہوئیں۔سن ڈائل کی ایجاد صفر سے ایک ہزار سال قبل ہوئی تھی تو دن کے درمیانی حصے کے لیے نمبر 12 کا استعمال ہوا.159 قبل مسیح میں روم میں واٹر کلاک کی آمد ہوئی جو رات کے 12 گھنٹوں کے بارے میں بھی بتا سکتی تھی۔اسی کے باعث رومیوں نے کاروباری و سماجی مصروفیات کے لیے نصف شب سے نئے دن کا آغاز کرنا شروع کیا کیونکہ رات کے اس وقت مصروفیات نہ ہونے کے برابر ہوتی تھیں۔رومیوں کا خیال تھا کہ دوپہر میں تاریخ کا بدلنا بہت زیادہ الجھا دینے والا ہوگا۔عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔حالانکہ روز ازل سے یہی قدرتی نظام چل رہا ہے۔چاند اور سورج اپنے مقررہ وقت پر نکلتے ہیں سورج، زمین، چاند اور سیارے اپنے مدار پر اپنی مقررہ رفتار سے گردش کرتے ہیں۔ہم اپنے سماجی، مالی اور معاشرتی حالات کے تناظر میں وقت کی اچھائی کے گن گاتےاور برائی کا رونا روتے ہیں۔وقت یا زمانہ برا ہوتا تو اللہ تعالی زمانے کی قسم نہ کھاتا۔دنیا میں وہی افراد اور قومیں کامیابی کی منازل طے کرتی ہیں جو وقت کی قدر کرتی اور اس کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔