فکرو خیال ۔۔۔مہنگائی کے مجرم ہم خود بھی ہیں ۔۔فرہاد خان ۔۔۔
ابھی پچھلے ہفتے ہی کی بات ہے ۔بیٹی کے لئے او لیول کی کچھ کتابیں درکار تھیں۔ایک بھائی سے درخواست کی انہوں نے اپنے کسی جاننے والے کو کتابون کی لسٹ واٹس اپ کردی۔ اس بھائی نے ایک کتاب گھر سے وہ کتابیں خریدی اور بل مجھے واٹس اپ کردی۔بل کے مطابق کتابون کا کل رقم 3900 روپے تھا۔کتابین کسی بزریعہ گاڑی مجھے ارسال کیا ڈرائیور صاحب نے کتابین ڈگی میں رکھ لی راستے میں ڈگی کے کھلنے سے کتابیں کہیں کھو گئیں یوں ڈرائیور کی غلطی سے مفت کا نقصان ہوا کتابین کھو جانے کے بعد ڈرائیور صاحب کا نمبر بھی اب تک بند ہے۔چونکہ کتابیں تو منگوانا ہی تھا۔ ایک اور بھائی سے درخواست کی کہ متعلقہ کتابیں پھر سے خرید کر ارسال کردیں اتفاق سے وہ کسی دوسرے اسٹیشنری کے دوکان سے وہی کتابیں خریدی اور اسی لمحے بل ارسال کردی ۔بل دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ جو کتابیں ایک کتاب گھر سے 3900 روپے میں خریدی گئی تھیں انہی کتابون کا بل اس دوسرے دوکان میں 4800 روپے تھا ۔ میں نے فورا پہلے والے کتاب گھر کا بل اس بھائی کو واٹس اپ کردی اور کہا کہ براہ کرم اس صاحب کو دیکھائیے گا کہ آخر ماجرا کیا ہے ۔وہی کتابیں لیکں قیمت میں 900 روپے کا فرق۔ چونکہ ابھی اس بھائی نے کتابیں اس دوکان سے اٹھایا نہیں تھا اس لئے بل دیکھ کر دوکان والے کو کتابیں واپس کردی۔پوچھنا یہ تھا کہ آخر قیمت میں اتنا فرق کیوں ؟ اور اس میں قصور کس کا ۔ایک دوکان سے دوسرے دوکان میں ایک ہی قسم کے کتابوں میں نو سو روپے کا فرق۔چونکہ او لیول کی اکثر کتابیں باہر ملک کے رائٹرز کی ہوتی ہیں اس لئے ان میں کتاب کی قیمت درج نہیں ہوتی اور اسی کا ہمارے مسلمان تاجر فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی مرضی کی قیمت لگا کر ہم جیسے سادہ لوح لوگوں کو لوٹتے ہیں اور وہ بھی کسی معقول دلیل کے بغیر۔دونون بلوں کا جب غور سے موازنہ کیا تو ایک کتاب میں پانچ سو جبکہ دوسرے کتاب میں تین سو روپے کا فرق تھا ۔ اب رونا اس بات کا ہے کہ ہم ہر وقت مھنگائی کا رونا روتے ہیں اور سرکار کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں مگر ہم خود تجارت میں ایمانداری ،دیانت داری اور حرام و حلال کی تمیز سے کوسوں دور ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ سرکار نے مھنگائی کی انتہا کردی لیکن ہم اپنے گریباں میں جھانکنے سے گریزاں ہیں ۔میں اس اسٹیشنری والے کا نام اور اس کے دوکان کا نام لینا نہیں چاہتا مگر اس طرح کے سرعام لوٹ مار کے بعد سرکار کو مھنگائی کی دوہائی دینے والوں پر لعنت بھیجتا ہوں ہر اس تاجر پر دوکاندار پر کاروبار کرنے والے پر جو دس روپے سرکار کی طرف اسے اضافے کے بعد سو روپے اپنی طرف سے مھنگا کرکے حکومت وقت کو گالیان دیتا ہے ۔ہر اس جیسے قبیح فعل کی مذمت کرتا ہوں کہ ایسے ایسے کتنے لوگ دونوں ہاتھوں سے غریبوں کو لوٹنے میں مصروف ہیں اور سرکار کو بددعائیں دیتے ہیں ۔میرے پاس چونکہ پہلے والے دوکان کا بل موجود تھا اس لئے نو سو روپے مفت میں حرام کھانے والے اس مسلمان سے بچ گیا مگر مجھ جیسے ایسے سینکڑوں لوگون سے ایسے حرام کی کمائی وصول کرنے والوں کے پاس کیا جواز ہے کہ وہ اب بھی اپنے آپ کو بڑے فخر سے مسلمان کہے۔ ہمیں چاہیئے کہ سرکار کو دوش دینے ،سرکار کو گالیان دینے اور دوسروں پر کیچڑ اچھالنے سے پہلے اپنے آپ کو سدھارنے کی کوشش کریں ورنہ برائے نام مسلمانی کچھ کام نہیں آنے والے اور آگے ہمیں اس رب کے دربار میں بھی جواب دینا ہے ۔