دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔” حکمران کے اوصاف“۔۔۔محمد جاوید حیات
حکمران کوٸی عام آدمی نہیں ہوتا وہ خاص ہوتا ہے اس کی مرضی دوسروں کے لۓ حکم کا درجہ رکھتا ہے اس کی سوچ دوسروں کے لۓ راہ عمل ہے اس کا لفظ دوسروں کے لۓ سنگ میل ہے وہ اکیلا نہیں ہوتا اس کو سب کو ساتھ لے کے چلنا ہوتا ہے اب اس کھٹن سفر کے لۓ اس کی ذات میں صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے ورنہ یہ سفر ناممکن بن جاتا ہے ۔۔اصل میں حکمران بھی ایک انسان ہی ہوتا ہے اس لۓ ایک انسان کی جو بنیادی ضروریات ہوتی ہیں بس اس کو بھی انہی ضروریات سے واسطہ ہوتا ہے زندہ رہنے کے لۓ خوراک، پوشاک اور چھت کی ضرورت ہوتی ہےاس کی کیپیسٹی اس سے آگے کچھ نہیں اگر اس کے دستر خوان میں کھانوں کی بیسیوں قسم بھی ہوں تب بھی اس کو پیٹ بھرنے کے لۓ اتنے لقموں کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کا پیٹ بھریں باقی کھانا رہ جاتا ہے ۔پوشاک میں دسیوں جوڑا اکھٹا نہیں پہن سکتا ۔جتنی بھی قیمتی گاڑی ہو وہ صرف ایک سیٹ پہ بیٹھتا ہے باقی سیٹیں خالی ہوتی ہیں اور بس منزل پر پہنچنا ہوتا ہے ۔جتنا بھی بڑا گھر ہو اس کے ایک کمرے میں رہتا ہے اور اس کمرے کا بھی زیادہ حصہ خالی رہتا ہے اور سب سے المیہ یہ ہے کہ جوانی ،حسن ، جسمانی طاقت سب فانی ہیں۔انسان زندہ رہنے کے نشے میں ان حقاٸق کو بھول جاتا ہے ۔دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جس کو بھی تھوڑا اختیار ملا ہے اس کونشہ چھڑتا ہے وہ اس نشے میں دیوانہ ہوجاتا ہے ہاں اس پر بھی تاریخ گواہ ہے کہ جس نے اس کو خدمت سمجھا ۔۔۔عارضی سمجھا۔۔۔۔ آزماٸش سمجھا وہ کامیاب رہا ہے اور مر کے بھی زندہ رہا ہے ۔۔حقیقت یہی ہے کہ انسان اپنے اصل میں رہے ۔جب دنیا میں اسلام کی روشنی نہیں آٸی تھی تب حکمرانوں اور صاحبان اختیار کی حالت یہ تھی کہ وہ اس نشے میں اپنے آپ کو بھول جاتے تھے اور پھر سب کو بھول جاتے تھے ۔وہ آہستہ آہستہ مٹتے گۓ ۔اسلام نے جب اقتدار کے لۓ آزماٸش ، خدمت اور اس اقتدار کو اللہ کی امانت اور فانی ہونے کا درس دیا تو حکمران ان انسانی اوصاف سے متآصف ہوگۓ ۔خلفاۓ راشدین نے دنیا کو ایک طرز حکمرانی دی خود اپنی ذات کو احتساب کے لۓ پیش کیا ۔دنیا کی عیاشیوں سے دامن بچاۓ رکھا ۔جب مسلمانوں میں آہستہ آہستہ عیاشیاں آتی گٸیں تو وہ مٹتے گۓ اپنے کروفر، اپنی جاہ و جلال اپنی عظمت اور اپنی غیرت کھوتے گۓ آج دنیا میں بے حیثیت ہیں ۔آج دنیا میں سب سے پرتعیش اور بڑا محل بروناٸی کے سلطان کے پاس ہے لیکن وہ ضروریات زندگی کے لۓ دوسروں کے مختاج ہیں۔ عرب کے شیوخ سونے کے محلات میں رہتے ہیں لیکن اغیار کے آگے جھکے ہوۓ ہیں ۔ہمارےہاں ایوان صدر کی سجاوٹ میں اربوں روپے خرچ کیۓ جارہے ہیں لیکن باہر عوام ایک ایک لقمےکو ترس رہے ہیں وزیر اعظم، وزراء ،امرا اورآفسر شاہی کی عیاشیان دیکھ کر دھنگ رہ جاٶگے لیکن ملک کے عام باشندوں کی حالت یہ ہے کہ قرضوں تلے دب گۓ ہیں ۔عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران بے شک اسلام کے زرین اصولوں سے خاٸف ہیں اس لیۓ کہ انہوں کو اسلام کو پڑھا ہی نہیں ہے جدید تعلیم یافتہ ہیں اگر سچ مچھ کچھ پڑھے ہوۓ ہیں تو وہ مغرب کو فالو کیوں نہیں کرتے ۔امریکہ ان کا قبلہ ہے اس کا صدر واٸٹ میں دو کمروں میں دفتر لگا بیٹھا ہے اس کو معمولی تنخواہ مل رہی ہے اگر کوٸی اضافی اخراجات ہوں تو دوستوں سے قرض لیتا ہے ۔برطانیہ کے وزراۓ اعظم بار بار استعفی دیتے ہیں کہ ہم سے حکمرانی احسن طریقے سے انجام نہیں پا سکتی ہم اپنے عوام کو دھوکا نہیں دے سکتے ۔بل گریٹ اور بف کے پاس دنیا کے کٸ ممالک سے زیادہ دولت ہے وہ سیدھی سادھی زندگی گزارتے ہیں ۔ چینا کے صدر کا ناشتہ عام آدمی کے ناشتے جیسا ہے ہمارے حکمران ان کو اٸیڈیل کیوں نہیں بناتے ۔میرے خیال میں دنیا کے کسی حکمران کے بنک اکاٶنٹس کسی دوسرے ملک کے بنک میں نہیں ہیں ان کی ذاتی املاک کا ٹھیک ٹھاک حساب کتاب ہوتا ہے ایک ہم ہونگے کہ ذہنی لحاظ سے باہر ہونگے۔۔۔ دولت کے لحاظ سے باہر ہونگے۔۔۔ سکونت اور عیاشیوں کے لحاظ سے باہر ہونگے۔۔۔۔ بس چند دن حکمرانی کرنےکے لیۓ جسمانی لحاظ سے ادھر ہونگے۔حقیقی حکمران کے اوصاف ہوتے ہیں ۔وہ خدمت خلق سے متآصف ہوتا ہے وہ امانتدار اور بے لوث ہوتا ہے اور عادل اور کھرا سچا ہوتا ہے ۔اس کی ذات ہوس ملک گیری سے پاک ہوتا ہے اس کا مطمع نظر اس کا ملک اس کے عوام ہوتے ہیں ۔وہ اپنے آپ کو عوام میں سے سمجھتا ہے اور ان کے دکھ درد میں شریک رہتا ہے ۔وہ دنیا کی رنگینیوں سے دور ہوتا ہے اس کے دل میں درد ہوتا ہے خلوص کا درد ۔۔۔وہ اقتدار کو آزماٸش اور قومی خزانے کو امانت سمجھتا ہے ۔تب اس کو حکمران کے طور پر مانا جاتا ہے عوام کے دلوں میں اس کا احترام ہوتا ہے اس کے لیۓ دعاٸیں ہوتی ہیں اس کی دل سے حمایت ہوتی ہے ہمارے ہاں کی حکمرانی بچوں کا کھیل ہے اور حکمرانوں کو اپنی پڑی ہے ان کی عیاشیوں پہ انچ نہ آۓ ایسا ہوگا تو بہت برا ہوگا ۔ان کے سٹیٹسکو کا مسلہ ہے ان کی شان و شوکت ان کا حق ہے عوام جاۓ باڑھ میں یہ عالی شان دفاتر یہ چمکتی گاڑیاں یہ یس سر کی آوازیں یہ سلوٹ کی ٹپ ٹپ ان کا حق ہے اور داٸمی ہے لیکن یہ جب اپنے بیرونی آقاٶں کے سامنے جاتے ہیں تو سر جھکے ہوۓ ہیں ہونٹ خشک ہیں اور الفاظ خلق میں اٹک رہے ہیں ان کی جگہ ملک کے کسی چرواہے کو ہی لے جاٸیں تو وہ سینہ تان کے کھڑا ہوگا اس لیۓ کہ اس کو نہ اقتدار کا خوف ہے نہ کرسی کا ڈر ہے آپ خود اندازہ کریں کہ ان حکمرانوں کے پاس حکمرانی کے اوصاف ہیں ؟ ۔ہم میں غیرت کب جاگے گی ہمیں اس ملک کی مٹی کا احترام کیوں نہیں ؟ ہم اس طرز غلامی کو طرز حکمرانی کہہ کر کب تک دھوکا کھاتے رہیں گے ۔ہم میں دولت اور شان و شوکت کا بہت بڑا فاصلہ بن گیا ہے ایک خلیج ہے جب تک یہ نہ پاٹا جاۓ ہم نا اہل ہی رہیں گے اور نا اہلوں سے توقع ہی کیا ہے ؟