اسلاف سے کیا نسبت روحانی…محمد شریف شکیب
کہتے ہیں کہ وہ معاشرہ زوال سے دوچار ہوتا ہے۔آج پورے
عالم اسلام پر نظر دوڑائیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان حکمران بڑے گھروں اور عالیشان محلات کے خبط میں مبتلا ہیں۔اس وقت دنیا کا سب سے بڑا محل برونائی کے سلطان کے پاس ہے ،عرب ملکوں میں سینکڑوں ہزاروں محلات ہیں اور ان محلات میں سونے اورچاندی کی دیواریں ہیں، اسلامی دنیا اس وقت قیمتی اور مہنگی گاڑیوں کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔اگر ہم اپنے ملک پاکستان میں حکمرانوں کے طرز زندگی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، گورنر ہاؤسز،کور کمانڈر ہاؤسز، آئی جی ، ڈی آئی جی ہاؤسز، ڈی سی اوز ہاؤس اور سرکاری گیسٹ ہاؤسز سینکڑوں جریب پر مشتمل ہیں۔ پاکستان کے ایک ضلع میں18ویں گریڈ کے ایک سرکاری عہدیدار کا گھر 106کنال پر مشتمل ہے،اسلام آباد کے وزیراعظم ہاؤس کا رقبہ قائد اعظم یونیورسٹی کے مجموعی رقبے سے چار گنا بڑاہے۔لاہور کا گورنر ہاؤس پنجاب یونیورسٹی سے کئی گنا بڑا ہے ایوان صدر کا سالانہ خرچ ملک کی تمام سرکاری یونیورسٹیوں کے مجموعی بجٹ سے زیادہ ہے۔اس کے برعکس دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کا لائف سٹائل دیکھیں تو وہ سادگی کی زندہ مثالیں ہیں۔مائیکرو سافٹ کا مالک بل گیٹس دنیا کا امیر ترین شخص ہے۔ ان کے پاس دنیا کے 192 ممالک سے زیادہ دولت ہے۔ اس کے باوجود یہ شخص اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتا ہے۔ اپنے برتن خود دھوتا ہے۔ اس کا دفتر مائیکروسافٹ کے کلرکوں سے بڑا نہیں.وارن بفٹ دنیا کا دوسرا امیر ترین شخص ہے.اس کے پاس 50 برس پرانا اورچھوٹا گھر ہے،اس کے پاس 1980ماڈل کی پرانی گاڑی ہےاور وہ روز کوکا کولا کے ڈبے سٹورز پر خود سپلائی کرتا ہے.برطانیہ کے وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ 10 ڈاوننگ سٹڑیٹ صرف دو بیڈرومز پر مشتمل ہے۔جرمن چانسلر کو سرکاری طور پر ایک بیڈ روم اور ایک چھوٹا سا ڈرائنگ روم ملا ہے.
اسرائیل کا وزیراعظم چند مرلے پر محیط ایک چھوٹے سے گھر میں رہ رہا ہے۔وہ اپنی بجلی کا بل اور ٹیکس خود جا کر جمع کرتا ہے۔بل کلنٹن کو لیونسکی کیس کے دوران کورٹ فیس ادا کرنے کے لئے دوستوں سے ادھار لینا پڑا تھا.
وائیٹ ہاؤس کے صرف دو کمرے صدر کے استعمال میں ہیں،اوول آفس میں صرف چند کرسیوں کی گنجائش ہے.
جاپان کے وزیراعظم کوشام چاربجے کے بعد سرکاری گاڑی کی سہولت حاصل نہیں. لیکن چھوٹے گھروں والے یہ لوگ ہم جیسے بڑے گھروں والےلوگوں پر حکمرانی کررہے ہیں۔یہ ممالک آگے بڑھ رہے ہیں اور ہم دن رات پیچھے جا رہےہیں۔ہم بھاری شرح سود پر ان سے قرضے لے کر اسے اپنی حکومت کی اہم کامیابی قرار دیتے ہیں۔ہمارے سامنے اپنے عظیم اسلاف کی بے شمار مثالیں ہیں۔وہ بوریا نشین تھے اپنے کپڑوں پر پیوند بھی خود لگاتے تھے۔کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتے تھے۔پتھر کو تکیہ بنا کر فرش پر سوتے تھے۔لیکن انہوں نے ہفت اقلیم پر حکمرانی کی۔ہماری حالت زار کا ذکر کرتے ہوئے شاعر مشرق نے جواب شکوہ میں کہا تھا کہ”ہر کوئی مست مئے ذوق تن آسانی ہے..تم مسلماں ہو یہ انداز مسلمانی ہے.حیدری فقر ہے نہ دولت عثمانی ہے۔
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے۔وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر۔۔اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر” ایک اور موقع پر مفکر اسلام نے کہا تھا کہ” بھلا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی۔ ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا۔۔یہ بات طے ہے کہ جب تک ہمارے حکمران اور ارباب اختیار و اقتدار شاہانہ طرز زندگی چھوڑ کر حضرت عمر فاروق والا اسلوب نہیں اپناتے۔ ہماری حالت بہتر ہونے کی کوئی امید نہیں۔۔