دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔”آیبٹ ویو ہوٹل میں مہمانوازی “۔۔محمد جاوید حیات

کتابوں کی ریویو کے سلسلے میں کبھی آیبٹ آباد جانا ہوتا ہے ڈی سی ٹی کے ہمارے مہربان ہمیں بلاتے ہیں اور ہم سے کام کراتے ہیں اس بار پھر دو دن کے لیے راجہ شیراز سر نے بلایا۔۔۔۔ جانا ہوا ۔۔سوچا جاۓ رہاٸش بدلہ جاۓ ثناءٕ اللہ ہمیشہ مجھے امیر سفر بناتے ہیں میں ڈایوو بس کےاڈے سے قریب سیدھا جدون پلازہ چلا گیا ساتھی خاموش میرے پیچھے پیچھے چلا آرہا تھا ۔میں آیبٹ ویو ہوٹل کے کاونٹر پہنچا۔۔۔ ایک مہذب جوان کو کرسی پر براجمان پایا ۔جوان ہمیں دیکھ کر کھڑا ہوگیا ہوٹل مکمل خالی تھا سیاحت کا موسم نہیں تھا کوٸی ایک مہمان بھی نہیں تھا ۔ایبٹ آباد کا موسم یخ تھا دور پہاڑوں پر برف کی چادریں تھیں یہ جنوری کی 30 تاریخ تھی ہم دو بجے پہنچے تھے سفر کی تھکن تھی منیجر صاحب سے صرف اتنا کہا کہ بھاٸی سیزن آف ہے ۔۔۔انھوں نے مسکراتے ہوۓ کہا اگرسیزن ہو تو کمرہ ہی کب ملےگا ؟ ابھی دو چرپاٸی والے کمرے 3000پہ دوں گا اس لیے کہ تم لوگ دور کےمہمان ہو ۔۔ہم نے انٹری کراٸی چابی لے کے منیجر خود ہمارےساتھ آۓ ہم کمرےمیں گھسے نماز پڑھی اور نیچے رسٹوران میں کھانا کھانے کے لیے آگۓ ۔۔رسٹوران روایتی تھا ۔۔کرسیان بھی اور فرشی نشست بھی گاٶ تکیہ لگا کے کھانے کے انتظار میں بیٹھو ۔۔ہم نے مینو آٹھایا کھانوں کی فہرست دیکھی ارڈر دیا اور گاٶ تکیوں سے ٹیک لگا کے بیٹھ گۓ۔۔ہوٹل میں بہت سارے نوجوان کھانوں کا ارڈر دے کے بیٹھ کے خوش گپیوں میں مصروف تھے یہ کوٸی کالج یویورسٹی کے طلبا تھے ان کی وردی سے پتہ چلتا تھا کہ کسی اچھے خاصے تعلیمی ادارے کے بچے تھےاور ساتھ اچھے خاصے کھاتے پیتے خاندانوں کے لگ رہے تھے ۔۔۔بچے بڑے مہذب تھے لیکن پرنسپل ثناء اللہ کو شکوہ تھا کہ بعض بچے سگریٹ پی رہے تھے ۔انھوں نےکہا کہ ایک بچے سےکہہ دوں کہ بیٹا یہ دھواں صحت کے لیے مضر ہے میں نے کہا یار جی جوانی دیوانی ہے بچے یونیفارم سے لگتے ہیں کہ مستقبل کے ڈاکٹر ہیں حفظان صحت کے چمپین ہیں ہم بڈھوں سے ان کے دل ٹوٹیں گے ۔۔ہوٹل میں سروس بہت اچھی تھی کھانے کے بعد سبز چاۓ بغیر ذاٸقے کےلاتے ہیں لیکن گڑ کاٹ کے ٹکڑے کسی پرچ میں ڈال کے ساتھ رکھتے ہیں یہ مشروب بڑا من پسند ہے ۔۔البتہ بل ادا کرتے ہوۓ دل تھامنا پڑتا ہے۔ ہوٹل کا منیجر محمد شہزاد بڑے ہنس مکھ اور نرم لہجے والے جوان ہیں مستعد اور مرنجان مرنج ہیں اپنے ہوٹل کو دلہن کی طرح سجاۓ رکھا ہے ایبٹ آباد جنت نظیر ہے یہاں کے باشندے روایتی مہذب ہیں کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں ایبٹ آباد کا مرکزی حصہ جھیل ہوا کرتا تھا پانی رستارہتا حولیان، پنڈی اسلام آباد کے علاقے سیراب ہوتے جھیل خشک ہوگٸ پھر جنگل میں بدل گٸ ۔انگریز میجر نیچر کا عاشق تھا نام ”ایبٹ “تھا فوج میں میجرکے عہدے پر تھا چھپکے سے اپنے چند ساتھیوں کو لے کر جنگل سے ہوتے ہوۓ یہاں پہنچے اور ڈھیرا ڈال لیے۔۔ انسانی آبادی کی بنیاد پڑی سو سال بعد اس کی یہ حالت ہے کہ اوپر پہاڑوں تک آبادی گٸ ہے آگے منسہرہ، بٹاگرام، ایوبیہ ، نھتیاگلی وغیرہ وغیرہ کی بلٹ ہے۔قوم کے عظیم سپوت یہاں پہ اسودہ خاک ہیں۔فوج کی اکیڈیمی، تعلیمی ادارے موجود ہیں جہان اصغر خان اور ایوب خان کی یادآتی ہے وہاں ایوب میڈیکل کالج ، برنہال پبلک سکول، آرمی میڈیکل کالج کا بھی ذکر کرنا پڑتا ہے وہاں کاکول کا ذکر کرنا پڑتا ہے جہان پرپاک آرمی کے شیر ٹریننگ کرکے نکلتے ہیں ۔لیڈی گارڈن میں میجر ایبٹ کی شعری نثر ایک کتبے میں پڑھتا رہا اور ماضی میں بہت دور تک سفر کرتا رہا ۔واقعی ایبٹ آباد اس کی نظر میں خوابوں کی سرزمین تھی اب بھی ہے ہم نے اس کو آباد ہی نہیں کیا بلکہ اس کی لاج رکھی ہے ۔
منیجر محمد شہزاد بہت اچھے تھے چہرے پہ مسکراہٹ رہتی۔۔ دھیمے لہجے میں بات کرتے۔۔ شرین دھن اور شرین سخن تھے ۔ضرورت پوچھتے اور فورا سروس مہیا کرتے ۔کمرے صاف ستھرے، کشادہ اور پر سکون تھے گرمیوں میں یخ اور سردیوں میں گرم رکھنے کے سارے انتظام موجود تھے ۔جندون پلازہ میں بڑے شاپنگ مال ہیں اور ہر سہولت سیاحوں کے لیےاس کے اندر موجود ہے ۔میجر ایبٹ کے نام کی لاج ہو کہ اس جنت ارضی کی سیر کی ۔۔۔سیر کیا کی ۔۔۔مسکن بنایا اور آج ایبٹ آباد پاکستان کی خوبصورتی ہے اور کمال اس کے مہذب باشندے بھی ہیں جنھوں نے اس کی خوبصورتی میں اضافہ کیا ہے ۔ہمیں ایبٹ ویو ہوٹل میں اعلی میزبانی ملی جس کے لیے منیجر شہزاد کے بڑے شکرگزار ہیں اگر کسی کو ایبٹ آباد جانا ہوا تو ایبٹ ویو ہوٹل میں گھر کا ماحول پاٸیں گے اورسفر میں گھر کو بھول جاٸیں ۔۔۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔