دھڑکنوں کی زبان …” پروفیسر کریم اللہ“.. محمد جاوید حیات

جس سکول میں میں پڑھتاتھا اسی سکول میں میرے ابو پڑھاتےتھے ۔۔یہ گورنمنٹ ہاٸی سکول شاگرام تورکھو چترال کے قدیم ترین تعلیی اداروں میں سے ایک تھا یہاں سے نکلے ہوۓ ہیرے ملک کے مختلف محکموں میں خدمات انجام دیتے رہے ۔۔میں نے گاٶں کے پراٸمری سکول سے پانچویں جماعت پاس کرکے اس سکول میں چھٹی جماعت میں داخلہ لیا ۔ہر شام ابو میرے پھوپی زاد بھاٸی محمد زرین جو اسی سکول کے ابتداٸی طلبا میں سے رہ چکے تھےکچھ طلبا کا ذکر کرتا ان کی قابلیت ، ہنروری اور اخلاق کا ذکر کرتا ان میں سے ایک طالب علم کا ذکر روز ہوتا ان کا نام کریم اللہ تھا اور ان کا گھر ورکھوپ تورکھو میں تھا یہ ورکھوپ سے روز پیدل سکول آتے ۔ابو ان کی بڑی تعریف کرتے اور کہتے کہ بہت ذہین بچہ ہے با اخلاق اور محنتی ہےآگے جا کر یہ کچھ کرکے دیکھاۓ گا ۔یہ ابو کا بڑا پسندیدہ طالب علم تھا اس لیے اس کو دیکھنے کا اشتیاق بڑھتا ۔۔میں نے ایک روز کسی ساتھی سےپوچھا کہ مجھے دسویں جماعت کے کریم اللہ سے ملواٸیں ۔اس ساتھی نے دور سے انگلی کےاشارے سے بتایا یہ کریم اللہ ہیں۔کریم اللہ قدرے بڑے قد کے فربہ بدن کے سنجیدہ طالب علم تھے سب بچوں سے نمایان تھے سکول میں اس کی ایک شان تھی اساتذہ اس سے متاثر تھے کریم اللہ نے میٹرک میں سکول ٹاپ کیا اور آگے پڑھنے کے لیے گورنمنٹ ڈگری کالج چترال میں داخلہ لیا ابو تب بھی کبھی کبھی انکا ذکر کرتا ۔۔
کریم اللہ صاحب نے ورکھوپ کے ایک متمول خاندان میں شیر گوڑی خان کے ہاں آنکھ کھولا ۔۔ان کے جد امجد گلگت سے آکے چترال میں آباد ہوگۓ تھے ۔یہ قوم خوشوقت کی ایک شاخ بروشے سے تعلق رکھتے ہیں ان کا خاندان علم دوست تھا ان کو آگے تعلیم حاصل کرنے کے مواقع حاصل رہے ۔انھوں نے پشاور یونیورسٹی سے ایم اے پولیٹیکل ساٸنس کیا اور لکچرر بن گۓ ۔کریم اللہ صاحب کی زیادہ سروس پوسٹ گریجویٹ کالج جہانزیب کالج سوات جو کہ ملک کا نامی گرامی تعلیمی ادارہ ہے میں گزری ۔وہ کم ہی وقت میں کمشن پاس کرکے اٹھارہ گریٹ پہ ترقی کر گۓ اور اسی کالج میں گریٹ بیس پہ ٹرانسفر ہوکے گورنمنٹ کالج چترال جو کہ ان کا مادرعلمی تھا پرنسپل بن کے آۓ اور جنوری 2023 کو ملازمت مکمل کرکے پنشن لی ۔
پروفیسر کرم اللہ صاحب ایک محنتی باصلاحیت اور بصیرت والے استاد تھے اور اخلاق و کردار کے داعی کے طور پر زندگی گزارتے وہ اسلام کےایک عاشق کے طور پر زندگی گزاری۔اسلامی اور عالمی سیاسیات پر دست رس تھی انھوں نے ”قوموں کے باب میں سنت الہی “ نام سے ایک نمایان کتاب لکھی جو دوجلدوں میں شاٸع ہوٸی اس کتاب میں انھوں نے گویا اسلامی نظام کا خلاصہ پیش کیا ہے ۔کریم اللہ صاحب بڑے سچے کھرے کردار کے مالک ہیں انھوں نے اسلامی اقدار اور اخلاق اپنے طلبا میں اجاگر کرنےکی بھرپور جد و جہد کی۔ کریم اللہ صاحب بڑے خوش اخلاق واقع ہوۓ ہیں نرم مزاجی اور شرین سخنی ان کا وطیرہ ہے۔چہرے پر مسکراہٹ پھیلی رہتی ہے ۔مہمان نواز اور یار باشندے ہیں غریبوں اور ضرورت مند طلبا کی دل کھول کرمدد کرتےہیں ۔انھوں نے ڈگری کالج چترال میں ایک شاندار مسجد کی تعمیر کرکے یادگار چھوڑا ۔کریم اللہ صاحب کا قران و حدیث کا گہرا مطالعہ ہے۔انھوں نے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلواٸی ایک بیٹی اور بیٹا دونوں ڈاکٹر ہیں ۔انھوں نے سوات میں گھر تعمیر کرکے رہاٸش وہاں رکھی۔
مجھےابو کی وہ باتیں کریم اللہ صاحب سے متعلق اکثر یاد آتی ہیں ۔۔۔استاد ہی کسی کا مستقبل اور کردار بنانے میں رہنما کا کردار ادا کرتا ہے ۔پروفیسر کریم اللہ صاحب واقع ایک چمکتے ستارے تھے ابو کی بات سچ تھی۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔