معدنی دولت کا بے دریغ ضیاع…محمدشریف شکیب

مرزا اسد اللہ خان غالب نے کہا تھا کہ ”قرض کی پیتے تھے مئے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں۔ رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن“ہماری حالت بھی غالب سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ قرض لے کر کچھ لوگ پیتے اور کچھ لوگ پیٹ بھرتے رہے۔ اور اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ کسی نہ کسی دن ہماری فاقہ مستی ضرور رنگ لائے گی۔قدرت نے ہمیں زرخیز زمین، وافر آبی ذخائر، پر فضاء مقامات، جفاکش افرادی قوت، چار موسموں اور بے پناہ قدرتی وسائل سے نہایت فیاضی سے نوازا ہے۔ مگر ہم نے اپنے وسائل کو اپنی ترقی کے لئے استعمال کرنے پر کبھی توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف ضلع چترال میں اینٹی منی، سنگ مرمر، زمرد، جپسم اور چونے کے پتھر سے سالانہ 177ارب روپے کی آمدنی ہوسکتی ہے۔ دیگر قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں سے حاصل ہونے والی آمدنی اس کے علاوہ ہے۔ اپرچترال کے علاقہ کشم میں سونے کے اتنے ذخائر ہیں کہ اس سے پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے لیکن ہمارے سرکاری محکموں نے ان قیمتی معدنیات کے ٹھیکے سندھ اور پنجاب کے ٹھیکیداروں کو اونے پونے داموں دے دیئے ہیں۔ معدنیات نکالنے کی مشینری اور ٹیکنالوجی سے بے بہرہ یہ کمپنیاں بلاسٹنگ کے ذریعے ان قیمتی معدنیات کا بڑا حصہ ضائع کرتی ہیں۔معدنیات کے شعبے سے منسلک چترال سے تعلق رکھنے والے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں کو ان معدنیات کے ٹھیکے دانستہ طور پر نہیں دیئے جاتے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں اینٹی منی پراجیکٹ پر کام کرتے ہیں۔ کان سے ایک ٹن اینٹی منی کو پشاور کی مارکیٹ تک پہنچانے کے لئے انہیں تین مقامات پر ٹیکس دینا پڑتا ہے۔یہ رقم کروڑوں روپے بنتی ہے جس کا ساٹھ فیصد قومی خزانے میں جمع ہوتا ہے اور چالیس فیصد مقامی آبادی کو رائلٹی کے طور پر دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس چترال میں سینکڑوں ہزاروں ایکٹر پر محیط علاقے کو ٹھیکے پر دیا جاتا ہے جس میں دیہی آبادی، زرعی زمینیں اور باغات بھی آتے ہیں۔باہر سے آئے ہوئے یہ ٹھیکیدار مقامی لوگوں کو دیہاڑی دار مزدور کے طور پر بھی رکھنے کے روادار نہیں ہوتے۔نہ ہی مقامی آبادی کو کوئی رائلٹی دی جاتی ہے۔ٹھیکیداروں کو چند ہزار روپے کے عوض اپنا مال محفوظ طریقے سے مارکیٹ تک پہنچانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ جس سے قومی خزانے اور مقامی آبادی کو سالانہ ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں اربوں کا نقصان ہورہا ہے۔چترال کے علاقہ گرم چشمہ میں قیمتی دھات شیلائیٹ کے وافر ذخائر موجود ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ان ذخائر کا کھوج لگانے کے لئے وہاں عملہ تعینات کیاگیا۔ کچھ بجٹ بھی مختص ہوا۔شیلائیٹ پراجیکٹ پر مامور ایک اہلکار نے بتایا کہ پشاور سے ایک انجینئر سائٹ کا معائنہ کرنے گرم چشمہ گیا۔ پہاڑ پرچڑھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ پراجیکٹ کے چوکیدار سے کہا کہ کان کے قریب گرے ہوئے دوچار پتھر اٹھاکر لے آئے۔ چوکیدار جو پتھر لے آیا تھا ان کا تجزیہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ پتھر میں عام طور پر شیلائٹ دس سے پندرہ فیصد ہوتا ہے۔ مگر اس میں چالیس فیصد سے زیادہ تھا۔ یہ وہ دھات ہے جو ایک ہزار سینٹی گریڈ پرگرم ہوتا ہے۔ خلاء میں بھیجے جانے والے راکٹس کی بیرونی سطح پرشیلائٹ کی پالش کی جاتی ہے تاکہ تیز رفتاری سے خلاء کی طرف جاتے ہوئے وہ گرمی سے محفوظ رہے۔ جب پراجیکٹ کے لئے مختص فنڈ ختم ہوگیا تو یہ کامیاب پراجیکٹ بھی بند کردیا گیا۔ حال ہی میں چینی کمپنی نے چترال کے معدنیات نکالنے کے لئے پیش کش کی ہے۔انہوں نے تمام مروجہ ٹیکسوں کی ادائیگی کے ساتھ مقامی آبادی کو بھی ان کے حصے کی رائلٹی دینے کی حامی بھر لی ہے۔ اگر چترال میں موجود معدنی ذخائر کو نکالنے کے ٹھیکے کمیشن مافیا سے چھڑا کر شفاف طریقے سے بڑی کمپنیوں کو دیئے جائیں تو ملک کو سالانہ اربوں روپے کی آمدنی ہوسکتی ہے۔ اس سے ہزاروں لوگوں کوروزگار کے مواقع مل جائیں گے اسی رائلٹی کی رقم سے لوگوں کو بنیادی شہری سہولیات بھی فراہم کی جاسکتی ہیں۔ قدرت نے ہمارے پہاڑوں کو قیمتی معدنیات کے ذخائر سے بھر دیئے ہیں۔ضرورت ایک مخلص سیاسی قیادت کی ہے جو وژن رکھتا ہو۔ اپنے وسائل پرانحصار کرنے اور قوم کو دوسروں کی غلامی سے نجات دلانے کا عزم رکھتا ہو۔اپنی مٹی سے محبت کرنے والے کچھ لوگ یہ معاملہ اعلیٰ عدالت میں بھی لے جانا چاہتے ہیں توقع ہے کہ عدلیہ قومی ضرورت اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق اس معاملے پر اپنا تاریخی فیصلہ دے گی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔