خاک میں مل گئے نگینے لوگ ۔ …فکرو خیال ۔ فرہاد خان ۔
اسے تقدیر کا ستم کہیں یا قسمت کا لکھا ، قانون قدرت کے اس شق کے ساتھ ہزار اختلاف کے باوجود انسان قدرت کے سامنے انتہائی بےبس و مجبور ہے ۔اگرچہ طبعی عمر اور حادثات کی صورت میں موت کے درمیان قدرت و سائنس کا نظریہ بلکل الگ ہے مگر بحیثیت مسلمان ہم اس موقف پر مظبوطی سے قائم ہیں کہ آب و دانہ جب تک ہے انسان کی عارضی زندگی یہیں ہے اور آب و دانہ یعنی رزق جس دن ختم ہو تو انسان کا قانوں قدرت کے لکھے پر یہاں سے کوچ کر جانا امر ہے ۔بہرحال آپ اسے قانون قدرت کہیں یا حوادث زمانہ انسان کو ایک نہ ایک دن یہاں سے جانا تو ہے مگر جس انداز سے جس سرعت سے اور جس رفتار سے آج کل نگینے لوگ سپرد خاک ہورہے ہیں۔ اس پر دماغ سن ہے اور دل گرفتہ۔مگر اللہ کی رضا پر ہر صورت توکل اور صبر کے سوا چارہ ہی نہیں ۔سن 2022 سے 2023 کے آغاز اور اب تک بہت سے نگینے اس دنیا سے رخصت ہوگئے کہ جن پر اشک بہانا اور افسوس کرنا بنتا ہے ۔جنہیں یاد کرنا مجبوری ہے اور جن کی یادوں کا انمٹ نقوش زہن پر برسوں رہ جانا کوئی عجب نہیں۔ 2022 کے درمیانی مدت میں عبد الرحمان بھائی کا کوچ کرجانا بڑا سانحہ تھا ۔مرحوم عبد الرحمان سے کون واقف نہیں آڈیو ٹیپ ریکارڈنگ کے زمانے سے میوزیک سے وابستگی پھر کمپوٹر سی ڈیز سے ویڈیو ریکارڈنگ اور پھر موبائل و کیبل سے وابستگی تک گرم چشمہ کی ادب و ثقافت کے لئے آپ کی خدمات کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے ۔سادگی انسان دوستی اور بہترین اخلاق کے ساتھ جتنا جی لیا کمال کی زندگی جی لی اور رخت سفر باندھ گئے۔ مردان دیری سے تعلق رکھنے والے خلیفہ سید طاہر بھائی کو بھی ہزاروں اشکبار آنکھوں نے رخصت کیا انتہائی شریف النفس اور خدمت گار انسان تھے۔روئی پرابیگ کے نور علی بھائی اور مجیگرام کے رحمت الدیں بھائی کو بھی کون نہیں جانتا ۔یہ دونون بھی اپنے پیشے کے اعتبار سے گاون گاون قریہ قریہ مشہور تھیں سماجی کاموں میں سب سے پیش پیش اور ہر ایک کے کام آنے والے ،مجبوری میں ساتھ دینے والے اور مجبور و بے کس کا خیال رکھنے والے ۔انہیں ایسے بے وقت رخصت ہوتے ہوئے یقین نہیں آرہا مگر درحقیقت یہ دونوں بھی بڑی شان سے رخصت ہوگئے۔ ابھی ان دونون کی رخصتی کے زخم تازہ ہی تھے کہ امیرالدین بھائی کی خبر آن پہنچی۔ ایک اور ناقابل یقین خبر مگر تلخ حقیقت ۔امیرالدیں بھائی کے بارے سنا یہ تھا کہ آپ کئی سالوں تک کراچی میں گمنام زندگی گزاری، برسوں بعد جب بھائیوں اور رشتہ داروں کو پتہ چلا تو اسے گھر واپس لایا گیا شادی کی، اولاد کی نعمت سے فیضیاب ہوئے, خاموش طبیعت کے مالک ،اپنے کام سے کام رکھنے والا اور عاجز و ملنسار مگر کمیونٹی کی خدمت میں پیش پیش مگر یہ جو کہتے ہیں کہ نا ، اچھے بھلے لوگون کی یہ دیس نہیں ،ان کا جہاں کہیں اور ہے یہ بس اپنا ایک جھلک دکھانے آتے ہیں ضروری امور نمٹانے کے بعد اور مشن مکمل کرنے کے بعد اپنی الگ دنیا کوچ کر جاتے ہیں اور قصہ تمام ۔دو مہینے میں دو نوجوان بھائیوں کو اس طرح کھو دینا بلاشبہ انتہائی المناک غم ہے اللہ تعالیٰ نظام الدین بھائی و خاندان والون کو صبر جمیل عطا کرکے اپنا خاص کرم کرے ۔وادی کریم آباد کی معروف سماجی و سیاسی شخصیت سلطان شاہ صاحب سے بالمشافہ کبھی ملاقات نہ ہوئی مگر اس کی انسان دوستی ،سیاسی و سماجی خدمات کا چرچا ضرور سنا ہے اس کا یون بزم دنیا سے اٹھ کر چلے جانا علاقے کا ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ابھی ابھی وادی کریم آباد کا ایک اور سپوت ، زندگی کے آخری ایام تک بحیثیت معلم خدمات انجام دینے والے بزرگ استاذ محترم سلطان ولی بھی سر راہ علم کی شمع جلانے کی عظیم مشن کے دوران ہی فانی دینا کو خیر باد کہہ گئے ہیں ۔شاید رب تعالیٰ کو یہی منظور ہے ۔خاک میں مل گئے نگینے لوگ ۔ اللہ تعالیٰ ان سب ہیروں کو اپنے خاص جوار رحمت میں جگہ دے ۔آمین ۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھون کہ اے لیئم
تو نے وہ گنج ہائے گران مایہ کیا کئے ۔