عقل و خرد کی بے حسی۔۔۔ تحریر: اقبال حیات اف برغذی

چارسدہ کے علاقے میں ایک وسیع وعریض رقبے پر پھیلے ہوئے قبرستان سے گزرنے کا اتفاق ہوا۔ جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایشیاء میں سب سے بڑے قبرستان سے منسوب کیا جائے تو بیجانہ ہوگا۔ جہاں بے شمار افراد زمین کی آغوش میں دنیا کی بیتی ہوئی زندگی میں کئے گئے اعمال کے اثرات سے متاثر آسودہ خاک ہیں۔  اس قبرستان میں سلطان محمود غزنوی کے سپہ سالار بھی مدفون ہیں اور ایک مردے کو دفنانے کے بعد تین دن متواتر اس کی لاش قبر سے باہر پڑی ملنے کے واقعے کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے ۔ بحرحال یہ شہر خاموشان بہ زبان خود بول رہاتھا کہ

جائے گا جب جہاں  سے  کچھ بھی  نہ  پاس  ہوگا

دو   گز  کفن   کا    ٹکڑا    تیرا    لباس   ہوگا

اس دنیا سے ناطہ ٹوٹنے کے بعد زندگی میں کئے گئے اعمال کی بنیاد پر سامنے آنے والے حالات سے واسطہ پڑتا ہے ۔اور اس وقت خسارے کی صورت میں ” اب پچھتائے کیا ہوت  جب چڑیان چک گئیں کھیت” کی کفییت سے دوچار ہونا پڑیگا۔ کیونکہ واپس آکر اس کی تلافی کی گنجائش نہیں ۔

عباسی دور میں بغدار میں بہلول دانا نام سے موسوم ایک اسم بامسمی شخصیت تھے ۔جو عام طور پر زمانے کے لوگوں کے بقول دیوانا تھا ۔ایک دفعہ وقت کے حکمران ہارون  الرشید شکار سے واپس آرہے تھے ۔بہلول دانا ان کی گزرگاہ میں کھڑ ے ایک دینار کا تقاضا کرتے ہوئے اس کے بدلے جنت میں ایک عظیم الشان محل دینے کا وعدہ کررہے تھے۔ہارون الرشید ہنستے ہوئے دیوانہ کہہ کر گزر جاتے ہیں۔اس کے پیچھے آنے والی اس کی اہلیہ محترمہ زبیدہ بیگم سواری سے اتر کر ایک دینار بہلول دانا کے ہاتھ میں تھماتی ہیں۔اسی رات خلیفہ وقت خواب میں جنت میں ہوتے ہیں۔ اور ایک جگہ قصر زبیدہ نام سے موسوم ایک عالیشان  محل پر اس کی نظر پڑتی ہے۔ اپنی اہلیہ کے نام کو دیکھ کر اندر جانے کے ارادے سے دروازے پر جاتے ہیں۔ اور وہاں پر مامور فرشتہ اسے روکتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ صرف اس نام کی خاتون کے لئے مخصوص ہے۔ خواب سے بیدار ہونے کے بعد اپنی اہلیہ کے سامنے اس خواب کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے کسی مخصوص عمل کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔زبیدہ بیگم فرماتی ہیں کہ میر اکوئی قابل ذکر عمل نہیں البتہ کل میں نے بہلول دانا کے تقاضے پر اسے ایک دینار دی تھی۔یہ سن کر ہارون الرشید اٹھتے ہیں اوربہلول رانا کے پاس جاکر اسے ایک دینار دیتے ہوئے اپنے لئے جنت میں محل کا تقاضا کرتے ہیں۔ بہلول دانا مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنت کا نظارہ کرنے کے بعد اس کا سودا نہیں ہوسکتا۔

اس  واقعے کے تناظرمیں اگر دیکھا جائے تو عقل وخرد کا حامل انسان ہدایت اور رہنمائی سے فیضیاب ہونے کے باوجود اپنی بقا کی طرف دھیان نہیں دیتا اور چند روزہ زندگی کو سنوارنے میں سرگرم عمل رہتا ہے۔اور اس سلسلے میں عالیشان عمارت،چمچماتی گاڑی ، صاحب منصب اولاد اوردولت وثروت کی کثرت کا حصول دل میں مچلتا ہے ۔ اور ان مقاصد کے حصول کے لئے حرام خوری،بدعنوانی اور ہر وہ عمل کر گرزنے پر آمادہ ہوتا ہے۔جو ابدی زندگی کی بربادی کے محرک ہوتے ہیں اور اس سے بدقسمت انسان کوئی نہیں ہوگا۔جو اتنے بڑے خسارے کا سودا کرے ۔اور اس احساس سے محروم ہوجائے۔

   ہے یہ سرائے فانی نہیں منزل  حیات

           جس میں قیام مثل مسافر ہو ایک رات

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔