داد بیداد…دل سے جو بات نکلتی ہے..ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

علا مہ اقبال کے جو اشعار ضرب المثل کا د رجہ رکھتے ہیں ان میں سے ایک شعر یہ بھی ہے دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پر نہیں طاقت پر واز مگر رکھتی ہے دل کی باتیں کون نہیں بتا تا سب بتا تے ہیں دل کا فسانہ کون نہیں چھیڑ تا سبھی دل کا فسانہ سنا تے ہیں مجھے پا کستان کے مو جو دہ حالات میں ایک عالم دین کا واقعہ یا د آتا ہے یہ دمشق کے عروج کا زما نہ تھا عالم دین نے خواب دیکھا خواب میں اُس نے دیکھا کہ ابلیس بیٹھا ہے سامنے رسیوں کا ڈھیر ہے اس ڈھیر سے رسیاں اٹھا تا ہے اور پھندے بنا تا ہے رسیاں بھی مختلف سائز کی ہیں کچھ موٹی، کچھ پتلی اور پھندے بھی مختلف سائز کے ہیں کچھ چھوٹے کچھ بڑے عالم دین نے ابلیس سے پو چھا کیا تم ابلیس ہو؟ اُس نے کہا آپ نے درست پہچان لیا میں وہی ہوں عالم دین بولا کیا کر رہے ہو، ابلیس نے کہا آدم کی اولا د کے لئے پھندے بنا رہا ہوں عا لم دین نے پو چھا یہ پھندے ایک جیسے کیوں نہیں ابلیس نے کہا آدم کی اولا د اپنی خصلتوں کے لحاظ سے ایک جیسی نہیں، کوئی عالم ہے کوئی جا ہل ہے کوئی عاجز ہے کوئی مغرور ہے کسی دولت کی تلا ش ہے کسی کو عہدے کا لا لچ ہے رمضا ن کا مہینہ آتا ہے تو میں اپنے خول میں قید ہوتا ہو ں آدم کی اولا د کے پیچھے گھوڑے نہیں دوڑا سکتا فرصت کے لمحات میں سال بھر کے لئے اس قسم کے پھندے تیار کر کے رکھتا ہوں عالم دین نے پوچھا تم یہ سب مجھے کیوں بتا رہے ہو؟ ابلیس بولا تم نے پو چھا تو مجھے بتا نا پڑا رمضا ن کے مہینے میں جھوٹ بولنا منع ہے اگر بو لوں گا تو دریا میں غرق کر دیا جا ونگا عالم دین نے کہا یہ بتاؤ تم نے میرے لئے کون سا پھند ا تیار کر لیا ہے ابلیس نے ایک پتلا دھا گہ اٹھا یا اُس کا پھند ا بنا یا اور عالم کو دکھا تے ہوئے کہا یہ ہے تیرا پھندا،عالم دین حیراں ہوا کہ میں اس ملعون کا سب سے بڑا دشمن ہوں یہ میرے لئے سب سے کمزور پھندا بنا تا ہے پو چھا یہ اتنا کمزور کیوں ہے؟ ابلیس نے کہا یہ کمزور نہیں سب سے زیا دہ طا قتور ہے یہ غرور اور تکبر کا پھندا ہے اس کے اندر شہرت اور دولت کے بے شمار پھندے ہیں جو نظر نہیں آتے، عالم دین کو ہم انہی پھندوں میں پھنسا تے ہیں اور اپنی راہ پر لگا تے ہیں عالم دین نے سب سے موٹے پھند ے کی طرف اشارہ کر کے پوچھا یہ پھندا کس کے لئے ہے؟ابلیس بولا یہ باد شاہ کے لئے ہے باد شاہ معمو لی پھند ے میں نہیں آتا اُس کے چاروں اطراف میں خو شامدی ہو تے ہیں جو اُس کو دنیا سے بے خبر رکھتے ہیں ہلکی ہلکی بھینی بھینی ہوا ئیں چلتی ہیں تو خو شا مدی کہتے ہیں حضور! یہ آپ کی بر کت سے چلتی ہیں سلطنت کے کسی کونے سے خو شی کی خبر آتی ہے تو خو شامدی کہتے ہیں کہ عالی جا ہ! یہ آپ کا اقبال ہے اس ما حول میں وہ کبھی کبھی اللہ کو یا د کر نے کا سوچتا ہے تو ہم یہ مو ٹا پھندا اُس کے گلے میں ڈالتے ہیں، باد شاہ کے گلے میں پھندا دیکھ کر خو شامدی رفو چکر ہوتے ہیں اور باد شاہ ہمارے قابو میں آجا تا ہے عالم دین نے کہا تم باد شاہ کو خو شامدیوں کے نر غے میں کیوں نہیں چھوڑ تے؟ ابلیس نے جوا ب دیا خو شامدیوں کے نر غے میں باد شاہ اپنی رعا یا کو بھول جا تا ہے لیکن اللہ کو نہیں بھو لتا اس لئے ہم خو شامدیوں کے نر غے میں اس کو دیر تک نہیں رکھتے عالم دین اُٹھنے لگا تو ابلیس نے کہا رمضا ن گذر جا ئے تو ہماری ملا قات پھر ہو گی یہ واقعہ لکھنے کے بعد مجھے ایک صاحب کشف بزرگ کی کہا نی یا د آگئی بزرگ عالم کشف میں جا نوروں سے بات چیت کر تا تھا ایک دن اپنے مرید وں کے ہمراہ ایک تنگ پگڈنڈی سے گذر رہا تا پگڈنڈی کے دونوں اطراف میں تا لاب اور کیچڑ تھا اتنے میں سامنے کتا آگیا بزرگ نے کتے سے کہا ہٹ جاؤ ہمیں راستہ دو، کیچڑ میں ہمارے کپڑے گندے ہونگے، کتے نے کہا تمہیں کپڑوں کے میل کی اتنی فکر ہے دل کے میل کی کوئی فکر نہیں بزرگ بولا دل میں کیا میل ہے کتا بولا یہی کہ میں کتے سے بہتر ہوں یہ میل نہیں تو کیا ہے؟ یہ سن کر بزرگ اپنے مریدوں کو لیکر کیچڑ میں اتر گیا، دل کا میل کپڑے کے میل سے زیا دہ قابل تو جہ ہے زیا دہ قابل غور ہے اللہ پا ک مبارک مہینے کے کے صدقے ہر مسلمان کو دل کے میل سے محفوظ رکھے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔